بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ ’’توحید یہ حدوث کو قِدَم سے جدا کر دینے کا نام ہے۔‘‘ کیونکہ موصوف عارف تھے اور وہ بعض لوگوں کو دیکھ رہے تھے کہ وہ اتحاد تک کے قائل ہوئے جا رہے ہیں اور انھیں قدیم اور حادث میں تمیز تک نہیں رہی اور بعض لوگ ’’فنا فی التوحید الربوبیت‘‘ میں جا پڑے تھے جو مامور امور محظور کے درمیان فرق کو ختم کر دیتی ہے۔ چنانچہ حضرت جنید نے انھیں ایک دوسرے ’’فرق‘‘ کی طرف دعوت دی اور وہ ہے توحید الہٰیت جو مامور اور محظور میں فرق کرتی ہے۔ سو کسی نے آپ کی موافقت کی تو کسی نے مخالفت اور کوئی آپ کے کلام کو سرے سے سمجھا ہی نہیں ۔
امام موصوف کے بعض کلام کو ابو سعید الاعرابی[1] نے ’’طبقات النساک‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ اعرابی جنید بغدادی کے اصحاب میں سے ہے اور ابو طالب مکی کے شیخ تھے۔ حدیث وغیرہ کے عالم اور زاہدین اور اہل حقائق کے اموال کے زبردست عارف تھے۔
امام موصوف جنید بغدادی نے حادث و قدیم میں اور مامور اور محظور میں جو فرق بیان کیا ہے اس سے بے شمار صوفیہ کی گمراہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ صوفیاء حضرت جنید کی مذمت کرتے تھے جیسے ابن عربی وغیرہ۔ کیونکہ ابن عربی نے ’’الإسراء الی المقام الاسری‘‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے جس کا موضوع حدیث نفس اور نفس میں پیدا ہونے والی شیطانی وساوس ہیں ۔ ابن عربی نے ان وساوس اور حدیث نفس کو پیغمبروں کی معراج کی طرح معراج قرار دیا ہے۔[2] اس کتاب میں انھوں نے حضرت جنید اور دیگر مشائخ کی خوب عیب جوئی بیان کی ہے۔ چنانچہ حضرت جنید رحمہ اللہ کے اس قول کہ ’’توحید یہ حادث کو قدیم سے جدا کرنے کا نام ہے‘‘ پر طعنہ زنی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’میں پوچھتا ہوں اے جنید! دو چیزوں کے درمیان فرق و تمیز وہی شے کریگی جو ان دونوں سے خارج ہو، اب تم یا تو قدیم ہو یا پھر حادث، دونوں صورتوں میں تم ان دونوں باتوں میں کیونکر تمیز کرو گے؟‘‘
لیکن یہ ابن اعرابی کی جہالت ہے کیونکہ دو چیزوں میں فرق وہ کرے گا جو جانتا ہے کہ یہ اس سے جدا ہے۔ اس میں یہ شرط نہیں کہ وہ فارق تیسرا ہی ہو، بلکہ ہر آدمی جانتا ہے کہ میں کسی بھی دوسرے کا غیر ہوں ۔ حالانکہ اس کے باوجود وہ اس
|