دوسرے کے ہوتے ہوئے خود تیسرا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ رب العزت اپنے اور اپنے غیر میں تمیز فرماتا ہے جبکہ وہاں کوئی تیسرا نہیں ہوتا۔
حضرت جنید اور دوسرے مشائخ عارفین نے جس شے کی مذمت بیان کی ہے اس میں بے شمار لوگ جا پڑے ہیں ۔ حتیٰ کہ قرآن، تفسیر، حدیث اور آثار کے جاننے والے بھی اس سے بچ نہ سکے اور اللہ اور اس کے رسول کی ظاہر و باطن سے تعظیم کرنے والے سنت رسول سے محبت اور اس کا دفاع کرنے والے بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے اور قصد و عمد سے اس غلطی میں جا پڑے اور اسے توحید کی انتہاء سمجھتے رہے۔ جیسا کہ ’’منازل السائرین‘‘[1] کے مصنف نے بایں علم و سنت اور دین و معرفت کے یہ بات ذکر کی ہے۔ موصوف نے اس کتاب میں اچھی اور بری ہر طرح کی باتیں لکھ دی ہیں ۔ لیکن موصوف نے بات ’’توحید ربوبیت میں فنا‘‘ پر جا کر ختم کی ہے۔ پھر اس توحید کے ذکر پر ختم کی ہے جو دراصل ’’اتحاد‘‘ کا عقیدہ ہی ہے۔ اسی لیے پہلے وہ کہتے ہیں : ’’باب التوحید: ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ﴾ (آل عمران: ۱۸) ’’اللہ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘
توحید: یہ رب تعالیٰ کو حدث سے پاک قرار دینا ہے۔‘‘آگے لکھتے ہیں : علماء نے جو کہا سو کہا، اور محققین نے اس طریق میں توحید کی تصحیح کے لیے اور اس کے دوسرے حال اور مقام کے بیان کے لیے جس بات کی طرف جو اشارہ کیا سو کیا، سو وہ ساری کی ساری باتیں علتوں پر مشتمل ہیں ۔
آگے لکھتے ہیں : توحید تین قسم پر ہے:
۱۔ ایک وہ توحید جو عوام کی ہے۔ یہ شواہد کے ساتھ درست ہو جاتی ہے۔
۲۔ دوسری وہ توحید جو خواص کی ہے۔ یہ حقائق سے ثابت ہوتی ہے۔
۳۔ اور تیسری وہ توحید جو قِدَم کے ساتھ قائم ہے، یہ اخص الخواص کی توحید ہے۔
رہی توحید کی پہلی تو یہ لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ الاحد الصمد کی شہادت دینا ہے کہ وہ یکتا، بے نیاز ہے نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے۔ یہ وہ ظاہری اور جلی توحید ہے جو شرکِ اعظم کی نفی کرتی ہے، اسی پر قبلہ قائم ہے، اسی سے ذمہ واجب اور جان و مال محفوظ و مامون ہوتے ہیں ۔ دار الاسلام اور دار الکفر میں فصل اسی توحید سے ہوتا ہے، عامۃ الناس کا دین و ملت اسی سے درست ہوتا ہے، گو انھیں حسن استدلال حاصل نہ بھی ہو، البتہ وہ شبہ، حیرت اور شک سے محفوظ ہوں اور یہ توحید ایسی سچی شہادت کے ساتھ ہو جس کی تصحیح دل کرتا ہو۔
یہ عوام کی وہ توحید ہے جو شواہد سے درست ہو جاتی ہے اور شواہد سے مراد رسالت ہے اور صنائع سمع ہے واجب
|