سے سرتابی کرتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کبھی بندوں سے اس بات کا ارادہ بھی کرتے ہیں جو وہ بجا نہیں لاتے، جیسا کہ وہ انھیں اس بات کا بھی حکم دیتا ہے جس کو بجا نہیں لاتے۔
اب جہمیہ میں سے قدریہ جبریہ اور ان کے پیروکاروں کا قول ہے: بلکہ رب تعالیٰ کا ارادہ موجود کو تو شامل ہے البتہ غیر موجود کو شامل نہیں ۔ کیونکہ مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ’’رب تعالیٰ نے جو چاہا وہ ہوا اور نہ چاہا وہ نہ ہوا۔‘‘ دوسرے ایسی بات کا ارادہ جس کے نہ ہونے کا علم ہو تمنا کہلاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُo﴾ (ابراہیم: ۲۷)
’’اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘
پس رب تعالیٰ جو چاہتے ہیں سو اس کو کیا۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَوْشِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰہَا﴾ (السجدۃ: ۱۳)
’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔‘‘
معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے اس بات کو نہیں چاہا اور اس نے ہر ایک کی ہدایت کا ارادہ نہیں کیا۔ اگرچہ اس نے اس بات کا امر بھی کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)
’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘
معلوم وہا کہ رب تعالیٰ جیسے اسلام کے لیے شرح صدر کا ارادہ کرتا ہے اسی طرح گمراہ کرنے کا بھی ارادہ کرتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا:
﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ﴾ (ہود: ۳۴)
’’اور میری نصیحت تمھیں نفع نہ دے گی اگر میں چاہوں کہ تمھیں نصیحت کروں ، اگر اللہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمھیں گمراہ کرے۔‘‘
یہ دلیل ہے کہ رب تعالیٰ نے گمراہ ہونے والے کے گمراہ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الرعد: ۱۶)
’’کہہ دے اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
پس بندوں کے موجودہ افعال وغیرہ میں سے جو بھی ہے اس کا خالق اللہ ہی ہے۔
|