اور جہمیہ میں سے جبریہ وغیرہ تقدیر میں نزاع کرتے ہیں تو سب کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کا ارادہ یہ اس کی محبت ہے جو اس کی رضا ہے۔ پھر معتزلہ کا قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ ایمان اور عمل صالح سے محبت کرتے ہیں اور کفر اور فسق و عصیان کو ناپسند کرتے ہیں لہٰذا رب تعالیٰ نے اس کاارادہ نہیں کیا۔
اس کی دلیل میں وہ رب تعالیٰ کے یہ ارشادات پیش کرتے ہیں :
﴿وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ﴾ (الزمر: ۷)
’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ﴾ (النساء: ۱۰۸)
’’جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَo﴾ (البقرۃ: ۲۰۵)
’’اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
حضرات فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نیک اعمال کی دو قسمیں ہیں : (۱) واجب (۲) اور مستحب
مستحب وہ عمل ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہو۔ اور منہی عنہ جملہ اعمال مکروہ ہیں ۔ اللہ اور اس کا رسول انھیں ناپسند کرتے ہیں ۔ پھر کراہت کی بھی دو قسمیں ہیں : (۱) کراہت تحریمی (۲) کراہیت تنزیہی۔
محرمات کا ذکر کرتے ہوئے رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْہًاo﴾ (الإسراء: ۳۸)
’’یہ سب کام، ان کا برا تیرے رب کے ہاں ہمیشہ سے ناپسندیدہ ہے۔‘‘
صحیحین میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’رب تعالیٰ تمھارے لیے قیل و قال، کثرتِ سوال اور اضاعتِ مال کو ناپسند فرماتے ہیں ۔‘‘
اور صحیح بخاری میں ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے:
’’رب تعالیٰ چھینک کو محبوب رکھتے ہیں اور جمائی کو ناپسند فرماتے ہیں ۔‘‘[1]
ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عالم میں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں لہٰذا وہ رب تعالیٰ کی مراد نہ ہوں گی اور عالم میں جو باتیں رب تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی بابت
|