Maktaba Wahhabi

199 - 702
اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آ چکا، آپس میں ضد کی وجہ سے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں زجاج کا قول ہے کہ ان لوگوں نے باہمی ضد میں آ کر اختلاف کیا تھا نہ کہ دلیل و برہان کی جستجو میں ۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ اِنَّ رَبَّکَ َقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ﴾ (یونس: ۹۳) ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانا دیا، باعزت ٹھکانا، اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا، پھر انھوں نے آپس میں اختلاف نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کے پاس علم آگیا، بے شک تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنَاہُمْ مِّنْ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo وَآتَیْنَاہُمْ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوْا اِِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ اِِنَّ رَبَّکَ یَقْضِی بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَo ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَائَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَo اِِنَّہُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّاِِنَّ الظٰلِمِیْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَّ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَo ہٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُوقِنُوْنَo﴾ (الجاثیۃ: ۱۶۔۲۰) ’’جس نے کوئی نیک عمل کیا تو وہ اسی کے لیے ہے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔اور بلا شبہ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوت دی اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور انھیں جہانوں پر فضیلت بخشی۔اور انھیں (دین کے) معاملے میں واضح احکام عطا کیے، پھر انھوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا، آپس میں ضد کی وجہ سے ،بے شک تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ۔پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔بلاشبہ وہ اللہ کے مقابلے میں ہر گز تیرے کسی کام نہ آئیں گے اور یقیناً ظالم لوگ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں اور اللہ متقی لوگوں کا دوست ہے۔‘‘ قرآن کریم کے یہ مواقع اس بات کو کھول کر بیان کرتے ہیں کہ ان اختلاف کرنے والوں نے علم اور روشن دلائل آ چکنے کے بعد ہی اختلاف کیا تھا اور اس سے غرض ظلم و زیادتی تھی۔ نہ کہ اس لیے ان پر حق و باطل میں اشتباہ ہو گیا تھا۔ یہ مذموم اختلاف کرنے والے جملہ اہل ہواء و بدعت کا حال ہے۔ جو حق ظاہر ہو جانے کے بعد ہی اختلاف کرتے
Flag Counter