Maktaba Wahhabi

198 - 702
ہو اور وہ ہر حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت کرے اور اس بات کو بالضرور جانے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ لہٰذا مطلق صرف ایک ہی ذات کی مدد کے لیے کمربستہ ہو اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور مطلق صرف ایک ہی جماعت کے لیے انتقام لے اور وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے۔ کیونکہ ہدایت صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہے۔ یہ حضرات کبھی خطا پر جمع نہیں ہوئے۔ بخلاف کسی بھی دوسرے صاحب مذہب عالم کے اصحاب و احباب کے کہ ان کا اجماع ہر حال میں حجت و ہدایت نہیں ۔ کیونکہ بسا اوقات ان کا اجماع خطا پر بھی واقع ہو جاتا ہے۔ بلکہ ان لوگوں کا وہ قول جو صرف انھی کا ہو اور امت میں سے کسی اور کا نہ ہو، وہ عموماً خطا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دین جسے دے کر رب تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے، وہ صرف ایک عالم اور اس کی جماعت کے سپرد نہیں اور اگر یہی بات ہوتی تو بلاشبہ یہ عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر ہوتا جو ’’امامِ‘‘ معصوم کے بارے میں روافض کے قول کے مشابہ قول ہے۔ یہ بات لازم اور واجب ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پورے دین کے اصول و فروع کے مذاہب کی طرف منسوب متبعین کے وجود سے قبل پورے پورے عالم و عارف ہوں اور یہ بات ممتنع اور محال ہے کہ یہ متبعین مذاہب ایک ایسی حق بات کو لے آئیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے مخالف ہو، کیونکہ تعلیمات نبویہ کے مخالف ہر بات باطل ہے پھر یہ بات بھی ممتنع ہے کہ یہ متبعین مذاہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک ایسی بات کو جانتے ہوں جو حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے مخالف ہو۔ کیونکہ یہ دونوں طبقے کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایک صاحب مذہب کا قول ....بشرطیکہ وہ حق ہو ....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی تعلیمات سے ماخوذ اور ان اصحاب مذاہب کے وجود سے پہلے کا ہو۔ پس دین اسلام میں کہا گیا ہر وہ قول جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے مخالف ہو، اور ان میں سے کسی نے وہ قول کیا بھی نہ ہو بلکہ انھوں نے اس قول کے خلاف کہا ہو، بلاشبہ وہ قول باطل ہے۔ غرض یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ رب تعالیٰ یہ بیان فرمایا ہے کہ ان اختلاف کرنے والوں کے پاس روشن دلیل اور قطعی علم آ چکا تھا اور انھوں نے یہ اختلاف صرف ضد اور عناد میں کیا تھا، اسی لیے تو رب تعالیٰ نے ان کے اختلاف کی مذمت بیان فرمائی اور انھیں اس کی سزا بھی دی۔ کیونکہ نہ تو وہ مجتہد تھے اور نہ اپنے اجتہاد میں خطا پر تھے بلکہ قصد و ارادہ سے ضد و عناد پر اڑے ہوئے تھے، حق کو جانتے بھی تھے پھر بھی قول و عمل دونوں کے ساتھ حق سے روگرداں تھے۔اس کی نظیر یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآء َہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ﴾ (آل عمران: ۱۹) ’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے اور وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی انھوں نے اختلاف نہیں کیا مگر
Flag Counter