﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْ ئٍ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ﴾ (البقرۃ: ۱۱۳)
’’اور یہودیوں نے کہا نصاریٰ کسی چیز پر نہیں ہیں اور نصاریٰ نے کہا یہودی کسی چیز پر نہیں ہیں ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ کے یہود اور نجران کے نصاریٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جھگڑا کیا۔ پس یہود بولے: نصاریٰ کسی بات پر نہیں جنت میں صرف یہودی داخل ہوں گے اور انھوں نے انجیل کا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا بھی انکار کر دیا۔ ادھر نصاریٰ نے یہ کہا کہ یہود کسی بات پر نہیں اور ساتھ ہی تورات کا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا انکار کر دیا۔ اس پر رب تعالیٰ نے یہ اور اس سے پہلے والی آیت نازل فرمائی۔[1]
یاد رہے کہ اہل بدعت کا اختلاف بھی اسی قبیل سے ہے چنانچہ خوارج کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات کسی بات پر نہیں اور یہی بات شیعہ حضرات خوارج کے بارے میں کہتے ہیں ۔ ادھر صفاتِ باری تعالیٰ کی نفی کرنے والے قدری کہتے ہیں کہ صفات کا اثبات کرنے والے کسی بات پر نہیں ۔ جبکہ صفات کا اثبات کرنے والے جبری قدری کہتے ہیں کہ یہ نفی کرنے والے کسی بات پر نہیں ۔ وعیدیہ کہتے ہیں کہ مرجئہ کسی بات پر نہیں اور مرجئہ کے نزدیک یہ وعیدیہ کسی بات پر نہیں ۔ بلکہ یہ بات کسی قدر سنت کی طرف منسوب اصولیہ اور فروعیہ مذاہب والوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ کلابیہ کرامیہ کو کچھ نہیں مانتے اور کرامیہ کلابیہ کو کچھ نہیں سمجھتے۔ یہی قول اشعریہ اور سالمیہ کا بھی ایک دوسرے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ ابو علی اہوازی سالمی نے اشعریہ کی مذمت میں جبکہ ابن عساکر اشعری نے سالمیہ کی مذمت میں مستقل ایک کتاب لکھی جس میں سالمیہ کے جملہ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔[2]
ایسا ہی اہل مذاہب اربعہ میں بھی ہے۔ ان میں سے اکثر نے اصولی مقالات میں التباس سے کام لیا ہے اور ایک بات کو دوسری میں گڈ مڈ کر دیا ہے۔ چنانچہ بعض حنبلی، شافعی اور مالکی حضرات نے اپنے مذاہب کو اشعریہ اور سالمیہ وغیرہ کے بعض اصول میں خلط ملط کر دیا ہے اور اشعریہ اور سالمیہ کے بعض اقوال کو ان حضرات کے مذہب کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح بعض علمائے احناف نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض مذاہب میں معتزلہ، کرامیہ اور کلابیہ کے بعض اصول میں رلا ملا دیا ہے اور اسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب باور کروایا ہے۔ یہ رفض و تشیع کی جنس میں سے ہے۔ لیکن یہ بعض علماء اور جماعتوں کی تفضیل میں تشیع ہے ناکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی تفضیل میں تشیع ہے۔
تب پھر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ’’وہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی شہادت دے اور اس شہادت سے اس کا اصل مقصد ایک اکیلے اللہ کی بلاشرکت غیرے عبادت کرنا اور اس کے رسول کی طاعت کرنا ہو۔ یہی اس کے عمل و عقیدہ کا مدار
|