یہ حدیث اس ارشاد باری تعالیٰ کے عین مطابق و موافق ہے:
﴿فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ﴾ (البقرۃ: ۲۱۳)
’’پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا۔‘‘
صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھتے تھے تو یہ دعا مانگا کرتے تھے:
(( اَللّٰہُمَّ رَبَّ جِبْرَآئِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَاِسْرَافِیْلَ فَاطِرَ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ))
’’اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! اے چھپے اور کھلے کو جاننے والے! تو لوگوں میں ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ تو مجھے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے، اپنے حکم سے ان میں حق بات کی ہدایت دے۔ بے شک تو جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘
پہلی حدیث بتلاتی ہے کہ رب تعالیٰ نے ایمان والوں کو اختلاف سے بچا کر حق بات کی توفیق دی، لہٰذا نہ یہ یہود کے ساتھ ہیں اور نہ نصاریٰ کے ساتھ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اختلاف سارے کا سارا مذموم ہے۔
۲۔ اختلاف کی دوسری قسم قبلہ میں اختلاف کرنا ہے، چنانچہ کوئی مشرق کی طرف تو کوئی مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں کیونکہ رب تعالیٰ نے ان کو مشروع نہیں کیا۔
۳۔ تیسری قسم سیدنا ابراہیم علیہ السلام میں اختلاف کرنا ہے کہ کسی نے انھیں یہودی تو کسی نے نصرانی کہا۔ یہ دونوں باتیں ہی مذموم ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo﴾ (آل عمران: ۶۷)
’’ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک طرف والا فرماں بردار تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔‘‘
۴۔ چوتھی قسم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام میں اختلاف کرنا ہے کہ یہود نے انھیں (معاذ اللہ) ولد الزنا کہا تو نصاریٰ نے الٰہ بنا دیا۔
۵۔ پانچویں قسم آسمانی کتابوں میں اختلاف کرنا ہے کہ کوئی ایک پر تو دوسرا کسی دوسری پر ایمان لے آیا۔
۶۔ چھٹی قسم دین میں اختلاف کرنا ہے کہ کسی نے کسی بات کو اور کسی نے کسی اور بات کو دین بنا لیا۔ رب تعالیٰ کا یہ ارشاد اسی باب سے ہے:
|