حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن زبیر رحمہما اللہ کے فتنہ کے متعلق ؛ قرآء کے حجاج کے ساتھ فتنہ کے متعلق ؛ اور شام میں مروان کے ساتھ فتنہ کے متعلق ؛ کہتے تھے: ’’ یہ اور یہ ؛ یہ تمام لوگ دنیا پر لڑرہے ہیں ۔ جبکہ اہل بدعت جیسے خوارج وغیرہ؛ وہ لوگوں کے دین میں خرابی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔پس ان سے جنگ لڑنا دینی جنگ ہے [دین کی وجہ سے جنگ لڑنا ہے]۔
مقصود کلام! ان لوگوں سے جنگ کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی ہوتا ہے تاکہ دین سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جائے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا؛ اور ظالم حکمرانوں سے لڑنے سے منع فرمایا ۔
اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خوارج سے جنگ کرنا صریح نصوص ؛اور اجماع ِصحابہ و تابعین ؛اور تمام علمائے اسلام رحمہم اللہ کے اجماع کی روشنی میں ثابت تھا۔اور جہاں تک جنگ جمل و صفین کی تعلق ہے ؛ تو وہ فتنہ کی جنگیں تھیں ۔ فضلائے صحابہ و تابعین اور علمائے مسلمین ان جنگوں کو ناپسند کرتے تھے۔ جیسا کہ اس مؤقف پر نصوص بھی دلالت کرتی ہیں ۔ حتی کہ جو لوگ ان جنگوں میں شریک ہوئے؛ وہ خود بھی اس امر کو ناپسند کرتے تھے۔ اور ان جنگوں کو نا پسند کرنے والے امت میں ان لوگوں کی نسبت افضل اور اکثر تھے جو ان جنگوں کی تعریف کرتے تھے۔
صحیحین میں کئی اسناد سے ثابت ہے کہ:
’’ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ بنی تمیم کے ذوالخویصرہ نامی فردنے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’ انصاف سے تقسیم فرمایئے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تیری خرابی ہو میں عدل سے کام نہ لوں گا تو پھر کون عدل کرے گا۔‘‘ اور پھر فرمایا: ’’ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو؛ اورجو آسمانوں میں ہے وہ مجھے امین سمجھتا ہے ۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ایسا نہ کرو؛ اس کی نسل میں ایسے ہوں گے کہ تم میں سے کوئی ایک ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھیں گے۔‘‘[1]
|