رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام مبارک ان اہل بدعت کے بارے میں ہے جو بڑے عبادت گزار تھے۔اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ :
’’ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب پیا کرتا تھا۔جب بھی اسے لایا جاتا تو اسے شراب پینے کے سبب کوڑے لگوائے جاتے تھے۔ ایک دن پھر نشہ کی حالت میں لایا گیا ؛تو قوم میں سے ایک شخص نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، کسی قدر یہ [نشہ کی حالت میں ] لایا جاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘[1]
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعین مئے نوش پر لعنت کرنے سے منع فرمایا۔ اور اس بات کی گواہی دی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر شراب نوش پر لعنت وارد ہوئی ہے۔ یہاں سے عام مطلق اور خاص معین میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ گنہگار جو اپنے گناہوں کے معترف ہیں ان کا ضرر مسلمانوں پران اہل بدعت کی نسبت بہت کم ہوتا ہے جو اپنی طرف سے بدعت ایجاد کرتے ہیں ؛ اور پھر اس کی وجہ سے اپنے مخالفین کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں ۔
روافض کی بدعت خوارج کی نسبت زیادہ سخت ہوتی ہے۔وہ ایسے لوگوں کو بھی کافر کہتے ہیں ؛ جنہیں خوارج بھی کافر نہیں کہتے۔ جیسے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ پرایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ ایسا جھوٹ کسی دوسرے نے کبھی نہ بولا ہوگا۔خوارج جھوٹ نہیں بولتے۔ خوارج روافض کی نسبت زیادہ بہادر؛ سچے اور وعدہ وفا کرنے والے؛ مرد میدان اور بڑے جنگجو تھے۔جب کہ ان کے مقابلہ میں رافضی نہایت جھوٹے، حد درجہ بزدل، بد عہد اور نہایت ذلیل ہوا کرتے تھے۔ شیعہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار تک سے مددلینے سے گریز نہیں کرتے۔ہم نے بھی دیکھا ہے اورمسلمانوں نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جب کبھی مسلمانوں پر کڑا وقت آیا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف ان کے
|