Maktaba Wahhabi

117 - 702
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک وہ نماز کی پابندی کریں تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ تمام احادیث صحیح ہیں ۔ اور ان جیسی مزید احادیث بھی موجود ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے جنگ وقتال کرنے کا حکم دیا؛ اور ظالم اور فاسق حکمران سے جنگ کرنے سے منع کیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ظالم باغی نہیں ہوتا جس سے جنگ کرنا جائز ہو۔ اس کے جملہ اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ جاہ و مال کا بھوکا ظالم اکثر طور پر صرف اور صرف اپنی دنیا کی خاطر لڑتا[اور ظلم کرتا]ہے۔وہ لوگوں سے لڑتا اور قتال کرتا ہے تاکہ اسے حکومت اور مال دیا جائے۔ اوروہ ان پر ظلم نہ کرے۔ان سے لڑائی کا سبب یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کا دین سر بلند ہو۔ اور سارا دین صرف اللہ کے لیے ہی ہوجائے۔ اور نہ ہی ان سے لڑنا اور ڈاکؤوں اور راہزنوں سے قتال کی جنس سے ہے ؛ جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے؛ اور جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے ؛ وہ شہید ہے؛ ور جو اپنی عزت و آبرو کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ ‘‘[1] کیونکہ وہ تو تمام لوگوں سے دشمنی رکھتے ہیں ؛ اور تمام لوگ ان سے لڑنے میں باہم تعاون کرتے ہیں ۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے؛کہ بیشک وہ دشمنی رکھنے والے اور جنگ کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہے۔ تو پھر ولاۃ الامور کسی کام کے کرنے یا کچھ لینے پرقادر نہیں ہوسکتے۔ بلکہ وہ جنگ لڑ کر صرف لوگوں کا خون بہانا اور ان کا مال لینا چاہتے ہیں ۔ ڈاکو لوگ تو اپنی طرف سے عوام میں قتل و غارت شروع کرتے ہیں ؛ جبکہ حکمران رعایا کو شروع میں قتل نہیں کرتے۔ ان دونوں میں فرق کرنا چاہیے ؛ جس سے آپ اپنے دفاع میں لڑتے ہیں ؛ او رجس سے آپ اپنی طرف سے لڑائی شروع کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فتنے کی لڑائی میں اپنے دفاع میں لڑنا جائز ہے ؟ان معانی و آثار میں تعارض کی وجہ سے اس مسئلہ میں امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایات منقول ہیں ۔ خلاصہ کلام! حکمرانوں کے خلاف بغاوت اس لیے کی جاتی ہے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں مال اور حکومت ہے؛ اسے اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔ یہ دنیا کے مال و اسباب کی وجہ سے قتال ہے۔
Flag Counter