Maktaba Wahhabi

109 - 702
سلف صالحین نے اس کے دو معانی بیان کئے ہیں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے؛ کہا: تیری نحوست کی وجہ سے اور ابن زید کہتے ہیں : ’’تمہاری تدبیر کی خرابی کی وجہ سے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ﴾[النساء ۷۸] ’’ کہہ دیں سب اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : ’’حسنہ اور سیئہ :[بھلائی اور برائی]:حسنہ وہ ہے؛ جو آپ پر انعام کیا گیا ہو؛ او ربرائی وہ ہے : جس سے آپ آزمائے گئے ہوں ۔‘‘ پس ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات نہیں سمجھتے ۔ اور ایسی ہی بات نہ سمجھنے کے متعلق بھی کہی گئی ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے :وہ نہ ہی سمجھتے ہیں ؛ نہ سمجھنے کے قریب لگتے ہیں ۔‘‘ یہاں پر نفی اثبات کے مقابلہ میں ہے۔ اوریہ بھی کہا گیاہے کہ :وہ سمجھنے والے لگتے نہیں تھے؛مگر پھر بھی آخرکار سمجھ گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾[البقرۃ ۷۱] ’’ اور وہ قریب نہ تھے کہ کرتے ۔‘‘ یہاں پر جس کی منفی کی گئی ہے وہ مثبت ہے؛ اور مثبت کی منفی ہے۔ عوام الناس کے ہاں اس طرح کے جملوں کا استعمال مشہور ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے کبھی یہ مراد ہوتا ہے او رکبھی یہ ۔جب کسی فعل کے اثبات کی صراحت ہو تو اس کا وجود ہوتا ہے۔ اور جب نفی محض کی صورت میں ہو؛ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لم یکد یراہا ﴾[النور۴] ’’لگتا نہیں تھا کہ وہ اسے دیکھیں گے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا ﴾[النساء ۷۸] ’’ پھر ان لوگوں کو کیاہوا کہ کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں ۔‘‘ یہ نفی مطلق ہے۔ اور اس کے ساتھ کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا جو اثبات پر دلالت کرتا ہو؛ اور پھر اس کے مطلق اور مقید میں فرق کیا جائے۔ نحوی حضرات کے یہ تین اقوال ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک قول کو ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ایک جماعت کی مذمت کی ہے کہ وہ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّواوَلِلَّہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰ۔کِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لاَ یَفْقَہُوْنَ ﴾[المنافقون ۷] ’’ یہی ہیں جو کہتے ہیں ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں ، یہاں تک کہ وہ منتشر ہو
Flag Counter