Maktaba Wahhabi

108 - 702
طرح کے امور ہیں ۔اس روایت میں ہے: جو آپ کو بھلائی پہنچی اس سے مراد وہ فتح تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے بدر کے موقع پر سر فراز کیا۔ اور سئیہ [برائی] سے مراد وہ شکست تھی جس سے بدر کے موقع پر دو چار ہوئے۔ ایسے ہی ابن قتیبہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ: : حسنہ سے مراد غنیمت اور نعمت ہے۔ اور سئیہ سے مراد: آزمائش ہے۔یہ تفسیر ابو عالیہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔ اور ان سے یہ بھی منقول ہے کہ:: حسنہ سے مراداطاعت ہے۔ اور سئیہ سے مراد: معصیت ہے۔ بعض متأخرین نے یہی کچھ خیال کیا ہے۔ پھر ان لوگوں کا اختلاف ہے۔ تقدیر کا اثبات کرنے والے کہتے ہیں :یہ ہمارے حق میں حجت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ﴾ [النساء ۷۸] ’’ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ جبکہ تقدیر کی نفی کرنے والے کہتے ہیں : یہ ہمارے حق میں حجت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ﴾[النساء ۷۹] ’’ اور جو برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے ۔‘‘ ان میں سے ہر ایک فریق کی دلیل دوسرے کی دلیل کے فساد پر دلالت کرتی ہے۔ جب کہ اس آیت کی تفسیر میں یہ دونوں قول باطل ہیں ۔ کیونکہ اس سے مراد نعمتیں اور مصایب ہیں ۔ اسی لیے فرمایا: ’’إن تصبہم ۔‘‘اگر انہیں پہنچتی ہے ۔‘‘ تو یہاں پر ضمیر منافقین پر لوٹتی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے: ضمیر کا مرجع یہود ہیں ۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس سے دونوں گروہ مراد ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ضمیر اس عقیدہ کے حامل لوگوں کی طرف لوٹتی بھلے وہ کسی بھی گروہ سے ہوں ۔ اسی کہا گیا ہے کہ: اس کے قائل کو متعین نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ پر جو کوئی بھی ایسا عقیدہ رکھے؛ یہ آیت اسے شامل ہوتی ہے۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام پر طعنہ زنی کرنے والے کافر بھی ہیں اور منافق بھی۔ بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں بیماری ہو؛ یا وہ کسی جہالت کا شکار ہو؛ وہ ایسی بات کہہ سکتا ہے۔ اور بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے کچھ پیغام رسالت کے متعلق ایسی بات کہہ دیتے ہیں ۔ مگر انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا پیغام ہے۔ کیونکہ وہ اپنے فریق مخالف کو ہی غلطی پر خیال کرتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ خود غلطی کا ارتکاب کررہا ہو۔ پس جب انہیں نصرت اور رزق سے نوازا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ اگرچہ اس کا سبب وہی ہو اور اگر ان کے رزق میں کمی آتی ہے؛ اور انہیں دشمن کی طرف سے یا ان کے غلبہ کا خوف محسوس ہوتا ہے؛ تو کہتے ہیں : یہ تمہاری وجہ سے ہے؛ اس لیے کہ آپ نے ہی جہاد کا حکم دیا تھا؛ تو پھر جوکچھ ہونا تھا وہ ہوا۔ تو یہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام سے بد فالی لینے لگ گئے؛ جیسے قومِ فرعون کے لوگ حضرت موسی علیہ السلام کے لائے ہوئے پیغام سے بد فالی لیتے تھے ۔
Flag Counter