اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمْ عِنْدَ اللّٰہِ ﴾[الاعراف ۱۳۱]
’’ تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔ سن لو! ان کی نحوست تو اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘
اور جب جہاد کے احکام کا ذکر کیا تو یہ بھی بتایا کہ بعض لوگ جہاد سے جی چراتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَمَالِ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا oمَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾ [النساء ۷۸۔۷۹]
’’ تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیاہوا کہ کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں ۔جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے ۔‘‘
یہاں پر بھلائی اور برائی[حسنات اور سیئات ] سے نعمتیں اور مصیبتیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مواقع پر انہیں حسنات اور سیئات کا نام دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ بَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ [الاعراف ۱۶۸]
’’ اور ہم نے اچھے حالات اور برے حالات کے ساتھ ان کی آزمائش کی، تا کہ وہ باز آجائیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ہُمْ فَرِحُوْنَ o﴾[التوبۃ ۵۰]
’’ اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کر لیا تھا اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔‘‘
اسی لیے فرمایا ہے:﴿مَآ اَصَابَکَ ﴾’’جو آپ کو پہنچے۔‘‘ یہ نہیں فرمایا:’’مَآ اَصَبْتَ ‘‘ جس تک آپ پہنچیں ۔ سلف صالحین اس آیت کی تفسیر میں یوں فرماتے ہیں:
ابو صالح رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے؛ فرمایا: حسنہ سے مراد ہریالی اور بارش ہے۔ اور سئیہ سے مراد: خشک سالی اور مہنگائی ہے۔
آپ سے والی کی روایت میں یوں ہے: : حسنہ سے مراد فتح اور غنیمت ہے۔ اور سئیہ سے مراد:ہزیمت ؛ زخم اور اس
|