دوسروں پر ظلم کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ دوسرے لوگوں پر عدوان؍ سرکشی ہے۔ بلا شک و شبہ وہ لوگ اہل عدل اور اللہ تعالیٰ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کرنے والے تھے۔
پس جس کسی پر مصیبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کی وجہ سے آتی ہے؛ تو درحقیقت یہ اس کے گناہوں کی شامت ہے۔ کسی ایک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر او رآپ کے لائے ہوئے پیغام پر عیب جوئی کرے؛ اس لیے کہ آپ کے لائے پیغام میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے؛ اور منافقین سے جہاد کرنے کا حکم ہے۔یا پھر اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو تقدیم بخشا کرتے تھے۔اور پھر آپ کے بعد مسلمانوں نے بھی ایسے ہی کیا۔جیسا کہ بعض روافض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں صرف اس لیے کوتاہی کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو تقدیم بخشی ہے۔
بعض روافض کے متعلق روایت کیا گیا ہے کہ وہ مسجد نبوی میں کچھ احادیث پڑھ رہے تھے؛جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل پر پہنچے؛ اور یہ فضائل سنے تو اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے:’’
’’دیکھو: تم پر یہ تمام تر مصیبت اس قبر والے کی وجہ سے ہے۔ یہ کہتا ہے:
’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘ ’’ اگر میں اہل زمین سے کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی شخص کی کھڑکی مسجد کی جانب کھلی نہ رہے۔‘‘اور اللہ اور اہل ایمان ابو بکر کے علاوہ کسی کو بھی ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔‘‘[ یہ فضیلت کسی دوسرے کی نہیں ]۔
کسی ایک کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ قرآن مجید کے عربی زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے امت میں اختلاف پیدا ہوا؛ اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ گئے۔ اور اس طرح کے دیگر جن میں شر کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کوقرار دیتے ہیں ۔ یہ تمام باتیں باطل ہیں ؛ اور یہ کلام کفار کا کلام ہے۔
کفار کی طرف سے رسولوں کو ملنے والا جواب نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَ لَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌo قَالُوْا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾ [یس ۱۸۔۱۹]
’’انھوں نے کہا بیشک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمھیں سنگسار کر دیں گے اور تمھیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔ انھوں نے کہا تمھاری نحوست تمھارے ساتھ ہے۔ کیا اگر تمھیں نصیحت کی جائے، بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو ۔‘‘
اللہ تعالیٰ قومِ فرعون کے متعلق فرماتے ہیں :
﴿فَاِذَا جَآئَ تْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَہٗ اَلَآ
|