ترجمہ:اورقدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤسنگھارکااظہار نہ کرو۔ امام لیث رحمہ اللہ تبرج کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :عورت کا اپنے چہرے اورجسم کے محاسن کو ظاہرکرنا تبرج ہے،ساتھ ساتھ اس کی نگاہوں سے حسنِ نظر یعنی اشتیاق جھلکتا ہو۔[1] لسان العرب میں ہے:عورت کا اپنے چہرہ کو ننگا کرنا ہی تبرج ہے۔ ابوحیان فرماتے ہیں :زمانۂ جاہلیت کا رواج یہی تھا کہ آزاد عورت اورلونڈی دونوں، صرف قمیض اور دوپٹہ لئے باہر نکلاکرتی تھیں،نیز اپنا چہرہ کھلارکھتی تھیں۔[2] آج کی رات،کل کی رات سے کس قدر مشابہ ہے (یعنی آج کے دور کی خواتین کی بے پردگی دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کل کا دور یعنی زمانۂ جاہلیت لوٹ آیا ہے) چنانچہ بازار، خواتین کے بے تحاشہ ہجوم کے باعث اپنی تنگ دامنی کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں،اور تمام خواتین (الا ماشاء اللہ )بے پردہ ہوتی ہیں۔ ایسے مقامات کس قدر ان منبروں کے محتاج ہیں،جن پر کھڑے ہوکر چیخ چیخ کر یہ حدیث باربار سنائی جائے (شر نسائکم المتبرجات )یعنی :تمہاری سب سے بدترین عورتیں وہ ہیں جوبے پردہ گھومتی پھرتی ہیں ۔[3] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |