اورمحمد بن سیرین کی ا پنی بیٹی حفصہ رحمہا اللہ کی حالت یہ تھی کہ تیس سال اپنی نماز کے کمرہ کے اندرگذار دیئے،صرف آرام یاقضائے حاجت کیلئے ہی باہرآتیں۔ اے وہ عورتو!جن کیلئے گھروں کے کمروں کے اندر کپڑے لٹکائے جاتے ہیں (یعنی حجلۂ عروسی)اسی قسم کے کردار سے مَردوں کی حرص وہوس سے بچنا ممکن ہے۔ میری مسلمان بہنو!شریر قسم کے لوگوں کی چکنی چپڑی باتیں،بڑی قوت سے سامنے آکر بہلانے پھسلانے کا کام کررہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس طوفانِ بدتمیزی کے آگے بند باندھنے والے یاتو ناپید ہوچکے ہیں یاانتہائی کمزور،لہذا اپنے گھروں کو لازم پکڑ لو،پھر اپنے گھروںکو لازم پکڑ لواگر فلاح چاہتی ہو۔ عاتکہ بنت زید رضی اللہ عنہارات کے وقت مسجد جانے کیلئے اپنے گھر سے نکلاکرتی تھیں، پھر نکلنا چھوڑ دیا،پوچھاگیا :آپ نے ایسا کیوں کیا ؟فرمایا :میں ان دنوں نکلا کرتی تھی جب لوگ واقعی لوگ تھے (یعنی شریفانہ ماحول تھا)اب تو لوگوں میں بہت بگاڑ آچکا ہے،لہذا میرے گھر کی چاردیواری میرے لئے کافی ہے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو یہ ترغیب دلائی ہے کہ وہ اپنے گھروں کو ہی ٹھکانہ بنائے رکھیں،بلکہ گھروں کے کسی انتہائی اندرونی کمرے کو۔اورایسی خواتین کو ان الفاظ میں بشارت دی: (من قعدن -أو کلمۃ نحوھا-منکن فی بیتھا فإنھا تدرک عمل المجاھدین فی سبیل ﷲ تعالیٰ )[2] یعنی :جو عورت اپنے گھر کے کسی اندرونی حصہ میں بیٹھی رہے،وہ مجاہدین فی سبیل اللہ کے عمل کا اجرپالے گی۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |