الْکِتَـابِ اِذَا جَھَرَ الْاِمَامُ]سوائے [ان کے تصحیح کردہ ]نسخہ مجتبائی کے دنیا بھر کے کسی دوسرے نسخہ میں موجود نہیں ہے اور حاشیہ پر جو دو ترجمے اور لکھے ہیں،ان میں سے ایک باب جو [ مَنْ تَرَکَ الْقِرَائَ ۃَ فِیْمَا جَہَرَ الْاِمَامُ]ہے، یہ بھی پہلے باب کی مانند ہے جو صرف نسخہ مجتبائی کے حاشیہ پر ہی پایا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے نسخہ میں موجود نہیں ہے اور دوسرا باب [مَنْ رَأَیٰ الْقِرَائَ ۃَ اِذَا لَمْ یَجْہَرْ] یہ ترجمہ دنیا بھر کے جمیع نُسخ ابو داؤد میں موجود ہے اور اسی کو صاحب ِ عون المعبود نے بھی اختیار کیا ہے ۔۔۔۔[اشرف] ۔‘‘ 4 بعض علماء و فقہاء کے نزدیک فاتحہ خلف الامام سے روکنے کی انتہائی اور آخری دلیل ابنِ ماجہ کی حدیث [مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَائَۃٌ]ہے، چنانچہ صاحبِ ہدایہ نے اس کو قطعی دلیل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے : ( عَلَیْہِ اِجْمَاعُ الصَّحَابَۃِ ) [1] ’’اس پر صحابہ رضی اللہ عنہ کا اجماع ہے۔‘‘ لیکن شومئی قسمت سے اس کی سند میں جابر جُعفی مشہور کذّاب راوی ہے جس کے متعلق امام طبری نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول یوں نقل کیا ہے : (مَا رَأَیْتُ أَحَداً أَکْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ) [2] ’’میں نے جابر جُعفی سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ نہ صرف یہی بلکہ مقدمہ صحیح مسلم میں ہے کہ جابر جعفی غالی رافضی تھا اور اسے اقرار تھا کہ مجھے پچاس ہزار موضوع (من گھڑت) احادیث یاد ہیں جن میں کسی دوسرے کا دخل نہیں۔[3] |