شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ) (النحل:120۔121)
’’بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرمانبردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔ اس کی نعمتوں کا شکر کرنے والا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ رسولوں کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ تم اللہ کا شکر ادا کرنے والے بن جاؤ۔فرمایا:
(كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ) (البقرة:151۔152)
’’جس طرح ہم نے تم میں ایک رسول تمہیں سے بھیجا ہے، جو تم پر ہماری آیات پڑھتا اور تمھیں پاک کرتا اور تمھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور تمھیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری مت کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے بھیجے جانے کا مقصد بیان کر کے فرمایا کہ میرا شکر ادا کرو۔ یعنی شکر خود مقصود ہے جبکہ صبر شکر کے لیے وسیلہ ہے۔
صحیحین میں حدیث ہے کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت دیر قیام فرمایا کہ آپ کے پاؤں سوج گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ اتنا قیام کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں؟ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘ [1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اللہ کی قسم میں تجھ سے محبت کرتا ہوں اور تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تم ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ بھولنا:
|