اگر اللہ اسے صحت دے دیتا ہے تو وہ پاکیزہ ہو کر نکلتا ہے اور اگر روح قبض کر لے تو پاکیزہ حالت میں اللہ کے پاس جاتا ہے۔‘‘[1]
’’پہلے لوگ بیماری پر ایسے خوش ہوتے تھے جیسے تم صحت پر خوش ہوتے ہو۔‘‘[2]
کچھ عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید بخار تھا اور ان کے منہ میں پانی ٹپکایا جارہا تھا ایک عورت نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ اسے ختم کر دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سب سے زیادہ آزمائش اللہ کے نبیوں پر آتی ہے پھر ان کے بعد جو زیادہ نیک ہوتے ہیں۔‘‘[3]
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول ! ان بیماریوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ’’یہ گناہوں کا کفارہ ہیں۔‘‘
ابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگرچہ کم ہو؟ فرمایا : ’’اگرچہ کانٹا ہی پاؤں میں لگے یا اس سے بھی کم۔‘‘ اس شخص نے دعا کی اے اللہ! مجھ سے بخار کبھی ختم نہ ہو اس کو بخار ہوا اور وہ تپنے لگا۔ نہ تو وہ حج کر سکا نہ عمرہ نہ جہاد اور نہ ہی فرض نماز باجماعت ادا کر سکتا تھا، جو شخص بھی اسے چھوتا تو بخار کی شدت پاتا، حتیٰ کہ وہ فوت ہوگیا۔[4]
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ تمھیں مصیبتوں کے ذریعے آزماتا ہے جس طرح تم سونے کو آگ میں ڈال کر آزمائے ہو۔ بعض وہ ہوتے ہیں جو خالص سونے کی طرح نکلتے ہیں، یہ وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، کچھ وہ ہوتے ہیں جو کھوٹ والے سونے کی طرح نکلتے ہیں، یہ وہ ہیں جنہیں دین کے بارے میں شک ہوتا ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو سیاہ سونے کی طرح نکلتے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو فتنوں میں داخل ہوچکے ہوتے ہیں۔[5]
|