گئی ہے جب ناحق اور ناجائز ذرائع سے حاصل کیا جائے ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مجھے صفوان نے یزید سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ’’پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جو مال جمع کرتا تھا، کئی سال نعمتوں میں رہا، مسکین شخص کے بھیس میں ملک الموت آیا اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ نوکر باہر آئئے ، ملک الموت نے کہا کہ اپنے مالک کو باہر بھیجو۔ انھوں نے کہا تجھ جیسے شخص سے ہمارا مالک نہیں ملے گا… کچھ دیر بعد اس نے پھر کھٹکھٹایا، اس نے پھر یہی جواب دیا اور اندر چلا گیا۔ پھر اس نے تیسری دفعہ دروازہ کھٹکایا، وہ باہر آیا تو ملک الموت نے کہا: ’’جا اندر جا کر اپنے مالک سے کہہ… ملک الموت آیا ہے۔‘‘ جب مالک نے یہ سنا تو خوفزدہ ہو کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: اس سے اخلاص سے بات کرنا۔ انھوں نے ملک الموت سے پوچھا کیا ہمارے سردار کے علاوہ کسی اور کو نہیں لے جا سکتے؟ اس نے کہا نہیں، اور کہا جو وصیت کرنی ہے کر لے۔ گھر والے رونے لگے۔ اس نے کہا تمام مال کے صندوقوں کے ڈھکن کھول دو۔ مال کی طرف منہ کر کے اسے گالی دینے اور برا بھلا کہنے لگا، کہا: اے مال میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں، تونے مجھے اللہ سے روکے رکھا اور مجھے آخرت کے لیے کوئی عمل نہیں کرنے دیا، حتیٰ کہ میری موت کا وقت قریب آگیا۔ مال بولنے لگا کہ مجھے گالی نہ دے… تو لوگوں کے سامنے کم تر تھا میں نے تجھے مقام دیا، تو اپنے گھر میں بادشاہوں اور سرداروں کو بلاتا تھا لیکن جب نیک لوگ آتے تھے تو انھیں اندر داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ تو بادشاہوں کی بیٹیوں کو شادی کے پیغام بھیجتا تھا لیکن نیک لوگوں کی بیٹیوں کے رشتے تیرے پاس آتے تھے تو قبول نہیں کرتا تھا، تونے مجھے برے کاموں میں خرچ کیا پھر بھی میں نے انکار نہیں کیا۔ اگر تو مجھے نیک کاموں میں خرچ کرتا تو بھی میں تیری نا فرمانی نہ کرتا۔ تو مجھے برا بھلا کہہ رہا ہے… حالانکہ ہم دونوں مٹی سے بنے ہیں… نیک آدمی نیکی کی طرف اور برا آدمی برائی کی طرف جاتا ہے… اسی طرح مال کہتا ہے مجھ سے بچ کر رہو۔‘‘
مالی عبادات اور اطاعت کا حصول مال کے فوائد میں سے ہے۔ اسی کے ذریعے سے حج کا بازار گرم ہوتا ہے، اسی سے زکوٰۃ واجب اور نفلی صدقات و خیرات کا وجود ہے۔ اسی کے
|