ہم صبر کی فضیلت کے منکر نہیں ہیں مگر یہ فضائل کہاں جائیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک شان بنائی ہے۔
صحیحین کی حدیث ہے : ’’رشک کرنا کسی پرجائز نہیں ہے سوائے دو لوگوں کے۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا ہو اور وہ دن اور رات کے حصے میں قرآن کی تلاوت کرتا ہو اور دوسرا وہ آدمی جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دن رات خرچ کرتا ہے۔‘‘ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دار کے خرچ کرنے کو قرآن کے ساتھ اور قیام کرنے والے کے ساتھ بیان کیا ہے، جو اس کی رفعت و عظمت پر دلالت کرتا ہے۔
ابو کبشہ انماری کی روایت میں ہے: ’’مال دار جب اپنے علم کے مطابق اپنے مال میں سے خرچ کرتا ہے، رب سے ڈرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں سے اللہ کا حق نکالتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں اعلیٰ مقام پرفائز ہے۔‘‘ [1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراء کو فرمایا تم یہ تسبیح کرو تو تمھارے عمل کے برابر کسی کا عمل نہیں ہو سکتا، سوائے اس کے جو یہ عمل کرے۔‘‘
امیروں نے بھی یہ عمل کرنا شروع کر دیا تو غرباء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور شکوہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مال کو خیر کہا ہے:
(إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ) (البقرۃ:180)
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے زمانے میں مال مومن کا ہتھیار ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مال کو بدن کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ بدن کی حفاظت سے دل کی حفاظت ہوتی ہے جو اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اللہ پر ایمان لانا، اس کے رسولوں کی تصدیق کرنا اور اس کی طرف رجوع کرنے کا محل دل ہے۔ مال کی مذمت اس اعتبار سے کی
|