گواہی قبول نہ کی جائے گی، چاہے وہ اکٹھے ہو کر (گواہی دیں) یا جدا جدا دیں۔‘‘[1]
د: (أبدًا) (کبھی بھی)۔ شیخ الاسلام اس کے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہ اس بارے میں نص ہے، کہ بلاشبہ ان بہتان باندھنے والوں کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی۔‘‘[2]
توبہ کے بعد ایسے لوگوں کی گواہی قبول کرنے کے بارے میں دو آراء ہیں۔ حضراتِ ائمہ مالک، شافعی اور احمد کے نزدیک تب گواہی قبول کی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسے لوگوں کی گواہی تاعمر مسترد کی جائے گی۔[3]
۶: ارشادِ تعالیٰ {وَّاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ} [اور وہ لوگ ہی نافرمان ہیں] کے متعلق علمائے امت کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
ا: شیخ الاسلام نے لکھا ہے:
’’(یہ) ان کے لیے قابلِ مذمت وصف ہے، جو کہ ان کی گواہی کے ردّ کیے جانے کے علاوہ ہے۔‘‘[4]
ب: حافظ ابن کثیر رقم طراز ہیں:
’’یہ کہ وہ فاسق ہیں، عادل نہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور نہ ہی لوگوں کے ہاں۔‘‘[5]
ج: قاضی ابوسعود نے قلم بند کیا ہے:
|