Maktaba Wahhabi

56 - 131
متعلق یہ حکم دیا کہ وہ بھی عیدگاہ کو جائیں تو وہ کہنے لگیں ((یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِحْدَانَا لَا یَکُوْنُ لَہَا جِلْبَابٌ‘ فَقَالَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم: لِتَلْبِسَہَا اُخْتُہَا مِنْ جِلْبَابِہَا۔)) [1] ’’اے اللہ کے رسول! ہم سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس اپنی چادر نہ ہو تو اسے کوئی دوسری بہن چادر دے دے۔‘‘ تو یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحابیات کے ہاں بغیر چادر کے باہر نکلنے کا معمول نہ تھا بلکہ چادر پاس نہ ہونے کی صورت میں باہر نکلنے کو وہ ممکن ہی نہیں سمجھتی تھیں اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عید پر جائیں تو چادر کے نہ ہونے کو انہوں نے بطور رکاوٹ ذکر کیا جس مشکل کا حل یوں نکالا کہ وہ اپنی بہن سے چادر مستعار لے کر (ادھار لے کر) ضرور جائے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ نہیں کہا کہ چلو خیر چادر نہیں ہے تو ننگے چہرے ہی لے کر چلی جائیں۔ اگر عید کہ جس میں ہر مرد اور عورت (حتی کہ حیض والیوں کو بھی) حکم ہے کہ جائیں وہاں اگر بغیر چادر کے جانے کا حکم نہیں دیا تو بے مقصد اور جو واجب بھی نہیں بازاروں اور سڑکوں میں کھلے چہرے دندناتی پھرنا کہاں سے جائز ہے۔ ۸: ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ جَرَّ ثَوْبَہٗ خُیَلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَکَیْفَ یَصْنَعُ النِّسَائُ بِذُیُولِہِنَّ؟ قَالَ: یُرْخِینَ شِبْرًا‘ فَقَالَتْ: اِذًا تَنْکَشِفُ أَقْدَامُہُنَّ‘ قَالَ: یُرْخِیْنَہٗ ذِرَاعًا لَا یَزِدْنَ عَلَیْہِ۔)) [2] ’’جو شخص تکبر کے ساتھ اپنی چادر کو لٹکا کر چلے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائیں گے‘ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو عورتیں
Flag Counter