اب دیکھیں کہ پردے کے بعد رضاعی چچا کو بھی اجازت نہیں دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے پردہ کرنا چاہا۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہفرماتے ہیں کہ : ((وَفِیْہِ وُجُوْبُ احْتِجَابِ الْمَرْأَۃِ مِنَ الرِّجَالِ الْاَجَانِبِ۔)) [1] ’’اس (حدیث) میں اس بات کا وجوب ہے کہ عورت اجانب (غیر محرموں) سے پردہ کرے گی۔‘‘ ۶: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ((کُنَّ نِسَائَ الْمُوْمِنَاتِ یَشْہَدْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم صَلوٰۃَ الْفَجْرِ مُتَلَّفِعَاتٍ بِمُرُوْطِہِنَّ ثُمَّ یَنْقَلِبْنَ اِلٰی بُیُوْتِہِنَّ حِیْنَ یَقْضَیْنَ الصَّلوٰۃَ لَا یَعْرِفُہُنَّ اَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ۔)) [2] ’’مومن عورتیں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز میں حاضر ہوتیں تو اس طرح اپنی چادروں میں لپٹی ہوتی تھیں کہ نماز کے بعد جب اپنے گھروں کو لوٹتیں تو اندھیرے کے سبب انہیں کوئی نہ پہچان سکتا۔‘‘ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کے جو اطوار ہم نے دیکھے ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے اسی طرح منع کر دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو منع کر دیا تھا۔ اور اسی طرح کے الفاظ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔ تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ پردہ کرنا اور اپنے جسم کو ڈھانپنا صحابیات کے معمول میں سے تھا اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما جن کا علم و فہم تعارف کا محتاج نہیں انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ اطوار دیکھ لیتے تو منع کر دیتے اور وہ زمانہ خیر القرون تھا چہ جائیکہ آج کے زمانے میں (جوکہ ۱۴ صدیاں بعد کا ہے کہ جس میں شرم و حیاء بالکل ہی رخصت ہو چکی ہے)بے پردہ عورت باہر نکلے تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے۔ ۷: ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے |