آگے فرمایا:
’’میرے بعد میری قبر کو ایسا نہ بنا دینا کہ اس کی پرستش ہوا کرے۔‘‘
آخر میں فرمایا:
’’اس قوم پر اللہ کا سخت غضب ہے، جس نے قبورِ انبیا ( علیہم السلام ) کو مساجد بنایا۔ دیکھو! میں تمھیں اس فعل سے منع کرتا رہا ہوں۔ دیکھو! میں تبلیغ کر چکا ہوں۔ یا الٰہی! تو اس بات پر گواہ رہنا۔ یا الٰہی! تو اس بات پر گواہ رہنا۔‘‘
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وصیت کو کئی بار دہرایا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کی حالت طاری ہوگئی۔ اس وقت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسِ پشت اس طرح بیٹھی تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرِ اقدس ان کے سینے پر تھا۔ بخاری شریف میں ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ان آخری لمحات میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبدالرحمن ( رضی اللہ عنہ ) آگئے، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک پر نظر ڈالی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرنا چاہتے ہیں، میں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں سرِ اقدس کو ہلایا۔ میں نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، مگر نقاہت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چبائی نہیں جارہی تھی۔ میں نے پوچھا: اگر ارشاد ہو اور پسند فرمائیں تو میں نرم کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکے اشارے سے ہاں فرمایا، میں نے (اپنے دانتوں سے) مسواک چبائی اور نرم کرکے دی تو آپ نے اچھی طرح مسواک کی، اس وقت پا نی کا پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی میںہاتھ ڈبوتے اور اپنے چہرۂ انور پر پھیر لیتے۔ ان آخری لمحات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کبھی سرخ ہو جاتا اور کبھی زرد پڑجاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبانِ مبارک سے بار بار یہ فرماتے:
(( لَآ إلٰہ إاِلَّا اللّٰہ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٍ )) [1]
’’اللہ کے سوا کو ئی معبودِ بر حق نہیں ہے۔ بیشک یہ سکرات الموت (سب کے لیے) ہیں۔‘‘
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت قریب آگیا۔ جب مسواک فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
|