آپ کے قیام کی خبر سن کر ایک یہودی سردار ’’حییّ بن اَخطب‘‘ اپنے بھائی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے گیا، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوب سوال جواب کیے۔ جب وہ گھرآئے تو ’’حیی بن اَخطب‘‘ کی بیٹی ’’صفیہ‘‘ نے محسوس کیا کہ آج اس کے والد اور چچا بڑے تھکے تھکے اور بوجھل طبیعت کے ساتھ گھر آئے ہیں۔ حیی بن اَخطب کی بیٹی باپ کو اس حالت میں دیکھ کر سخت پریشان ہوئی۔ وہ اس کی طبیعت معلوم کرنے اس کے پاس گئی۔ قریب پہنچی تو دیکھا کہ دونوں بھائی آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔
اس کے چچا ابو یاسر بولے: ’’کیا یہ وہی ہیں، جن کا ہم مدت سے انتظار کر رہے تھے اور اگر وہی ہیں تو پھر کیا رائے ہے آپ کی؟‘‘ ابو یاسر نے پوچھا: حیی بن اخطب نے نفرت بھری آواز میں کہا:
’’ نفرت، دشمنی ۔۔۔ زندگی بھر!‘‘ [1]
واقعی دونوں بھائی ساری زندگی اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اور آج پوری مسلمان امت انھیں ام المومنین کا درجہ دیتی ہے)۔
یہودی دیکھ رہے تھے کہ یثرب کی بستی میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں اور اس موقع پر اگر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلم کھلا مخالفت کی تو اوس اور خزرج ان کے دشمن ہو جائیں گے۔ یوں حالات سے مجبور ہوکر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے کا سردار تو مان لیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لا ئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے بعد سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا تے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی تصدیق کرتے، کیونکہ ان کی کتاب تورات کی پیشین گوئی کے مطابق اللہ کے نبی فاران ہی کے علاقے میں سے ظاہر ہوئے تھے لیکن ان ضدی اور جھگڑالو لوگوں کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے خاندان میں پیدا ہوں۔ اپنی اسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایمان لانا تو دور کی بات، الٹا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف درپردہ سازشوں میں مصرف ہوگئے۔ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کا کوئی
|