Maktaba Wahhabi

352 - 611
کے دو بیٹے،حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاقi تھے۔ تمام یہودی حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد اور ان کی قوم کے لوگ تھے۔ خاندانی طور پر وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی قوم کو جاہل سمجھتے اور ان سے نفرت کرتے، وہ سمجھتے کہ اللہ بھی بنی اسماعیل سے ناراض ہے، اسی لیے ان کے ہاں کوئی نبی پیدا نہیں ہوا۔ اب جب انھیں بنی اسماعیل کے ہاں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی خبر ملی تو وہ حیران بھی ہوئے اور حسد کا شکار بھی! کچھ ہی مدت بعد انھیں یثرب میں یہ خبر سننے کو ملی کہ اوس اور خزرج کے کئی قبیلے اس نبی پر ایمان لے آئے ہیں اور جلد ہی وہ یثرب بھی تشریف لانے والے ہیں۔ اس خبر سے پہلی مرتبہ ان کے کان کھڑے ہوئے۔ وہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ اب کیا کریں؟ ابھی وہ کچھ فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ پورے یثرب میں یہ خبر پھیل گئی کہ مکے میں قریش کی جس ہستی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، وہ تشریف لے آئے ہیں۔ یہود کے لیے یہ بڑی پریشانی کا دن تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے بڑے بوڑھے، مرد، عورتیں، بچے؛ سبھی اس نبی کی آمد پر بہت خوش ہیں اور شہر سے باہر نکل کران کا استقبال کر رہے ہیں۔ ان کے لیے اس میںپر یشانی کی بات یہ تھی کہ اوس اور خزرج کو تو انھوں نے ہمیشہ سے آپس میں لڑائے رکھا تھا، اب وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ ایک مذہب کے ماننے والے بن کردونوں میں اتحا د ہو جانا تھا۔ یہودیوں کے لیے دوسری پریشانی یہ تھی کہ وہ ہمیشہ سے یہ شور مچاتے آ رہے تھے کہ آنے والا نبی ان کے خاندان میں سے ہوگا۔ وہ بنی اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے عربوں کو جاہل، گنوار اور دیہاتی کہتے تھے۔ انھیں طعنے دیتے اور مذاق اڑاتے کہ تمھارے اندر سے کبھی کوئی نبی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔ اب اس خبر نے تو ان کے تن بدن میں آگ لگا دی اور پھر وہ دن آن پہنچا، جس دن یثرب کی قسمت جاگ اٹھی۔ اس کا نام بدل کر ’’مَدِیْنَۃُ النَّبِي ‘‘ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر قرار پایا۔ اللہ کے آخری اور سچے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب سے چندمیل کے فاصلے پر ایک بستی قبا میں عارضی طور پر ٹھہر گئے۔[1]
Flag Counter