Maktaba Wahhabi

173 - 611
اسلام نے ان عبادات و خدمات کو کسی زمان و مکان یا وقت و جگہ کے ساتھ پابند نہیں کیا، نہ یہ اعمال صرف مالی ہیں کہ صرف مالدار لوگ ہی سرانجام دے سکیں اور غریب محروم ہوجائیں اور نہ یہ اعمال ایسے قوت طلب ہیں کہ صرف قوی و طاقتور ہی ثواب کمائیں اور کمزور دیکھتے رہ جائیں اور نہ کوئی ایسے کام ہیں جنھیں صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ (Well Culured) لوگ ہی کر پائیں اور کم پڑھے لکھے اور ان پڑھ حرماں نصیب رہیں، نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ وہ اعمالِ صالحہ اور وہ کارہائے خیر ہیں جنھیں ہر امیر و فقیر، ہر طاقتور و کمزور اور ہر عالم و عامی ہر جگہ اور ہر وقت سر انجام دے کر اجر و ثواب کما سکتا ہے۔ اس طرح مسلمان اپنے معاشرے میں خیر و بھلائی اور شفقت و رحمت کا سرچشمہ بنا رہتا ہے، اس سے دوسروں کو نفع پہنچانے کا فیضان جاری رہتا ہے، وہ نیک کام کرتا ہے اور دوسروں کو بھی نیک کام کرنے کی دعوت دیتا اور ترغیب دلاتا ہے۔ وہ خود معروف کو سر انجام دیتا ہے اور دوسروں کی اس طرف راہنمائی کرتا ہے، وہ ہر خیر کا دروازہ کھولنے والی چابی بنتا ہے اور شر کے دروازے بند کرتا ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’لوگوں میں سے بعض خیر و بھلائی کی چابیاں ہوتے ہیں اور شر و برائی کے دروازے بند کرنے والے ہوتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس لوگوں میں سے بعض شر و برائی کی چابیاں ہوتے ہیں اور خیر و بھلائی کے راستے بند کرنے والے ہوتے ہیں۔ خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جن کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ خیر و بھلائی کی چابیاں رکھ دے اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جن کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ شر و برائی کی چابیاں تھما دے۔‘‘[1] مسلمان خیر و بھلائی اور نیکی و احسان کے جن آفاق میں زندگی بسر کرتا ہے، ان کا دائرہ صرف انسان کی ذات تک ہی محدود نہیں، بلکہ اُس میں اس کائنات کی ہر چیز: کیڑے مکوڑے، پرندے اور حیوانات سبھی شامل ہیں۔ آپ کسی بھی چیز کے ساتھ نیکی و احسان اور شفقت کا سلوک کریں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی رو سے اس پر اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور
Flag Counter