کی دو رکعتیں بھی تمھارے لیے کفایت کر جائیں گی۔‘‘[1]
صحیح بخاری و مسلم، سنن نسائی اور مسند احمد کی ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حاجت مند کی ضرورت کو پورا کرنے، خیر و بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے خود اپنے آپ کو روک کر رکھنے کو بھی صدقہ قرار دیا ہے۔[2]
جبکہ سنن نسائی، صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی ایک قدرے طویل حدیث میں کثرت سے کئی افعال کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ قرار دیا ہے، جن میں سے ’’اﷲ أکبر، سبحان اﷲ، الحمد ﷲ، لا إلٰہ إلّا اﷲ اور أستغفر اﷲ‘‘ کہنا، نیکی کا حکم کرنا، برائی سے روکنا اور ’’لوگوں کے راستے سے کانٹے، ہڈی اور پتھر ہٹانا۔‘‘ بھی شامل ہے۔ نیز اندھے کو سیدھا راستہ دکھانا، گونگے بہرے کو توجہ سے آواز بلند بتانا، یہاں تک کہ وہ بات کو سمجھ جائے، کسی کو اس کی مطلوبہ جگہ کا پتا بتانا یہاں تک کہ وہ اپنی مطلوبہ جگہ کو سمجھ جائے، کسی فریاد کرنے والے کے ساتھ تعاون کرنااور ضعیف و کمزور کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے۔ اسی حدیث میں ہے:
’’تمھارا اپنی بیوی سے جماع [ہمبستری] کرنا بھی تمھارے لیے اجر و ثواب کا ذریعہ ہے۔‘‘[3]
صحیح بخاری، سنن ترمذی اور صحیح ابن حبان کی ایک حدیث کے آخر میں:’’اپنے ڈول سے پانی نکال کر اپنے بھائی کے ڈول میں ڈال دینے‘‘ کو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ قرار دیا ہے۔ نیز فرمایا کہ ’’تمھارا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے۔‘‘[4]
غرض اسلام ان اعمالِ حسنہ کی صرف تعریف ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ان کی طرف دعوت دیتا ہے، ان پر آمادہ کرتا ہے، ان کا حکم دیتا ہے اور انہیں مسلمان کے شب و روز کے اُن واجبات میں سے قرار دیتا ہے جو اسے جنت کے قریب اور جہنم سے دور کردیں، تاہم وہ کبھی تو انھیں صدقے کا نام دیتا ہے، کبھی درود و نماز سے تعبیر کرتا ہے جو بہر حال عبادت اور تقرب الیٰ اللہ کا ذریعہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ سماجی و معاشرتی خدمات بھی ہیں۔
|