خاوند نے السلام علیک کہا، میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا، اس نے درخواست کی کہ میں اس کی طرف دیکھوں مگر میں نے کوئی حرکت نہ کی۔ پھر اس نے مجھ سے گفتگو کرنے کی کوشش کی، اپنی پسند اور ناپسند کا تذکرہ کیا، مگر مجھے ایسے لگتا تھا جیسے دور سے کوئی آواز دے رہا ہے، جبکہ اس کے الفاظ سمجھ سے بالا تر ہوں۔کافی وقت گزرنے کے بعد جب اس نے میری طرف سے خیرسگالی کے کوئی جذبات نہ دیکھے تو پریشان ہو کر پوچھا کہ کیا بات ہے؟ آپ مجھے اپنی پسند نا پسند کے متعلق نہیں بتائیں گی اور مجھ سے کوئی بات نہیں کریں گی؟
پہلی دفعہ میں نے نفرت اور غصے کے ملے جلے جذبات سے اس کی طرف دیکھا اور کہا آپ اس لڑکی سے کیسے شادی پر رضا مند ہو گئے جو آپ کے علاوہ کسی اور سے محبت کرتی ہے؟ یہ الفاظ میں نے اس قدر سخت لہجے میں کہے اور اسے ایسی خونخوار نظروں سے دیکھا کہ اسے ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا ہو۔ وہ یکدم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا اس کی تمام خوشیاں حسرتوں میں بدل گئیں اور شادی ماتم میں تبدیل ہوگئی۔ میں خود حیران تھی کہ میں نے ایسا انداز کیسے اختیار کر لیا؟میں تو کبھی کسی سے اونچی آواز سے بات بھی نہیں کرتی تھی مگر یہ کیا کہ میں نے اسے بچوں کی طرح ڈانٹ دیا۔
ہم دونوں کافی دیر تک خاموش بیٹھے رہے، میں نے نہ ہی تو اس کے علاوہ کوئی بات کی اور نہ ہی اس کی طرف دیکھنا گوارہ کیا۔ اس نے ایک لمبی سانس لی اور افسوس بھرے لہجے میں کہنے لگا، اگر یہ بات تھی تو آپ نے اپنے چچا کو آگاہ کیوں نہ کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے ساری بات ان کو صاف صاف بتادی تھی مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہے۔اس نے صرف اتنا کہا کہ اس شریف آدمی نے یہ کیا کردیا؟
کمرہ عروسی میں مکمل طور پر خاموشی چھائی ہوئی تھی حتی کہ تہجد کا مبارک وقت شروع ہوگیا۔ میرے خاوند نے بمشکل مجھ سے اتنا پوچھا کہ اب جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہو چکا، کیا آپ کے نزدیک اس کا کوئی حل موجود ہے؟ میں نے فوراً جواب دیا کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ مجھے ابھی طلاق دے دیں۔ اس کو ایک اور زبردست جھٹکا لگا، وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا اور اپنی نگاہیں زمین پر گاڑدیں۔ یہ دوسری دفعہ تھی جب میں نے اپنے خاوند کو دھیان سے دیکھا،
|