Maktaba Wahhabi

106 - 306
تھے۔میں نے اس امید کے ساتھ پھر اپنے محبوب سے رابطہ کیا کہ شاید وہ آخری وقت میں میری مدد کر کے مجھے سر پرائز دینا چاہتا ہو، مگر اس نے وہی مطالبہ رکھا کہ تم مجھے تنہائی میں ملو پھر کوئی پروگرام بناتے ہیں۔ میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر بےسود، میں نے شکستہ دل کے ساتھ فون بند کردیا اور اپنی تباہی و بربادی کے متعلق سوچنے لگی جو مجھ سے فقط دو دن کی مسافت پر تھی۔ شادی سے ایک دن قبل میرے چچا میرے پاس آئے۔ اور انتہائی مشفقانہ لہجے میں مجھے سمجھانے لگے۔ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات دیکھ کر ان کے ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگے مگر انھوں نے بڑے پیار سے میرا سراپنے سینے کے ساتھ لگایا اور رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ پیاری بیٹی! پروردگار کی قسم! میں تیرا خیر خواہ ہوں اور تیرا مستقبل روشن دیکھنا چاہتا ہوں۔ بیٹی! میں تمھیں تیرے گھر میں ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ ان کے الفاظ اگرچہ مجھے تیربن کر پیوست ہو رہے تھے مگر سچ تو یہ ہے کہ چچا کے آنسوؤں نے میری زبان کو بے حرکت اور بے بس کردیا اور میں نیم بسمل ہو کر بیڈپر گر گئی۔ میرے چچا دیر تک میرے سرہانے بیٹھے مجھے شرمندہ نہیں کروگی۔ پھر وہ لمحہ بھی آیا کہ میرے علاوہ گھر کے تمام افراد، عزیز واقارب اور سہیلیاں خوش تھیں جن کے بیچ میں ایک بت بن بیٹھی تھی۔ گھر کے آنگن میں خوشیاں اور شہنائیاں تھیں مگر میرے دل میں تنہائیاں اور اداسیاں تھیں۔ پھر وہ گھڑی بھی آن پہنچی جب میرے سامنے نکاح نامہ رکھا گیا، نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی بربادی کے پروانے پر دستخط کردئیے۔ جب میری سہیلیاں مجھے گاڑی میں بٹھانے کے لیے جارہی تھیں تو میرے پاؤں میرے جسم کا وزن اٹھانے سے انکار کر رہے تھے۔ مجھے سہارا دے کر گاڑی میں بٹھادیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد میرے خاوند کے نئے گھر کے سامنے گاڑی رکی، مجھے وہ بلڈنگ میری قبر اور مدفن محسوس ہو رہی تھی۔ میں ایک بے جان، بے حس اور بے زبان مورتی کی طرح عروسی کمرے میں بیٹھی اپنی بربادی پہ نوحہ کناں تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا، قدموں کی آہٹ سنائی دی جو میرے بیڈکے پاس آکر ختم ہوگئی۔ میرے
Flag Counter