روانہ کر دیتے۔اگر کسی چیز کا حکم دینا ہوتا،تو اُسے ارشاد فرما دیتے۔پھر(عیدگاہ سے)پلٹ آتے۔‘‘
علامہ عینی حدیث شریف کے فوائد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وَ فِیْہِ وَعْظُ الْإِمَامِ فِيْ صَلَاۃِ الْعِیْدِ،وَ وَصِیَّتُہٗ،وَ تَخْوِیْفُہٗ عَنْ عَوَاقِبِ الْأُمُوْرِ۔‘‘[1]
[’’اس میں امام کا نمازِ عید کے موقع پر وعظ و نصیحت کرنا اور معاملات کے انجام سے ڈرانا ہے‘‘]۔
خطبہ عید کے موقع پر خواتین کو وعظ و نصیحت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ عید میں خواتین کو وعظ و نصیحت کرنے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔امام بخاری اور امام مسلم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،(کہ)وہ بیان کرتے ہیں:
’’قَامَ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم یَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلّٰی،فَبَدَأَ بِالصَّلَاۃِ،ثُمَّ خَطَبَ۔
فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَی النِّسَآئَ فَذَکَّرَہُنَّ،وَ ہُوَ یَتَوَکَّأُ عَلٰی یَدِ بِلَالٍ رضی اللّٰه عنہ … الحدیث۔‘‘[2]
[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم(عید)فطر کے دن اٹھے اور سب سے پہلے نماز پڑھائی،پھر خطبہ دیا۔
پس جب(خطبہ سے)فارغ ہوئے،تو(منبر سے نیچے)اترے،پھر خواتین کے
|