اورکاٹنے سے منع فرمایا،بلکہ معمولی قسم کی تقصیرکاحکم دے کر انہیں حج کے پورے ثواب میں شریک کرلیا،توعام حالات میں بغیرکسی عذرکے صرف اغیار کی نقّالی اور زینت وآرائش کے لیے بال کاٹنایامنڈواناکس طرح درست ہوسکتا ہے؟ظاہر ہے ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کی صریح مخالفت کہلائے گا۔ وِ گ لگانا؟: اسی طرح بعض عورتیں اپنے سر کے بالوں کوبڑادکھانے کے لیے اس میں دوسرے مصنوعی بال جڑوالیتی ہیں،حالانکہ وہ اس طرح سے اﷲ تعالیٰ کی ساخت اوربناوٹ کوتبدیل کررہی ہیں۔جیساکہ صحیح بخاری میں سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:معاویہ رضی اللہ عنہ جب آخری با ر ۵۱ ہجری میں مدینہ طیبہ تشریف لائے توانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبرپرچڑھ کر ہمیں خطبہ دیا،اوربالوں کاایک چوٹلہ(وِگ)نکالکرفرمانے لگے:’’میں توسمجھتاتھاکہ یہ کام یہودیوں کے سوااورکوئی نہیں کرتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کوفریبی اورمکارکہاہے جوبالوں میں جوڑلگائے۔[1] صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ وہ منبرپرکھڑے ہوکریہ باتیں بیان فرمارہے تھے(اوران کے محافظ[باڈی گارڈ] کے ہاتھ میں بالوں کاایک چوٹلہ تھا):مدینہ والو!تمہارے علماء کہاں گئے ؟میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چوٹلہ سے ہمیں منع فرمایاکرتے تھے،اورفرماتے: ((إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا |