ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجویٰ (سرگوشی) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں سے کسی ایک سے اس کا رب فرمائے گا: "تم نے یہ یہ کام کیا تھا؟" وہ کہے گا "ہاں۔" پھر فرمائے گا: "تم نے یہ یہ کام کیا تھا؟" وہ کہے گا: "ہاں۔" اللہ تعالیٰ اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا۔ پھر فرمائے گا: "میں نے دنیا میں تمہارا پردہ رکھا تھا اور آج میں تمہیں بخش دیتا ہوں۔" (اني سترت عليك في الدنيا وانا اغفرها لك اليوم) (بخاری: 2/896)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا يستر عبد عبداً في الدنيا الا ستره اللّٰه يوم القيامة)
(مسلم، باب بشارۃ من ستر اللہ: 2590)
"جو بندہ دنیا میں دوسرے بندے (کے عیوب) کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔"
چنانچہ ایک مرتبہ سیدنا عتبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے کچھ پڑوسی شراب پیتے اور برے کام کرتے ہیں، کیا ہم گورنر تک یہ بات پہنچا دیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
"جو شخص کسی مسلمان میں کوئی عیب دیکھے اور اسے افشا نہ کرے تو اس نے گویا ایک لڑکی کو زندہ درگور ہونے سے بچا لیا۔" (الادب المفرد: 858)
لوگوں کے عیوب و نقائص اور کمزوریوں کی تشہیر کر کے ان کو رسوا کرنا یہ انسانی کمزوری کا علاج نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کو خلوت میں نہایت احسن طریق سے اور نرم گفتگو کر کے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو ناپسندیدہ ظاہر کر کے روکا جائے۔ اس طریقہ سے دلوں کے بند دروازے کھلتے ہیں اور اعصاب و جوارح اطاعت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور دل نرمی قبول کرتا ہے اور گنہگار اور بدعمل انسان بھی ہدایت کی شاہراہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن حکیم نے مسلمانوں کے عیوب کی ٹوہ لگانے سے منع فرمایا:
|