(وَلَا تَجَسَّسُوا) (حجرات: 12)
"اور عیوب کی ٹوہ نہ لگاؤ۔"
چنانچہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ اس کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہے۔ آپ نے فرمایا:
(انا قد نهينا عن التجسس ولكن ان يظهر لنا شئي ناخذ به)
(الادب المفرد)
"ہمیں عیوب کی ٹوہ لگانے سے روکا گیا ہے لیکن اگر عیب خود ہمارے سامنے ظاہر ہو جائے تو پھر اس پر ہم گرفت کریں گے۔"
اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمانوں کے عیوب و نقائص کی ٹوہ میں لگنے اور ان کی کمزوری اور کوتاہی کے پہلو تلاش کرنے اور پھر لوگوں میں اس کی تشہیر کر کے ان کو بے آبرو کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ اس سے ان کو اذیت پہنچے گی اور پورا معاشرہ متاثر ہو گا۔ نتیجہ یہ ہو گا بے حیائی اور بدکاری اور معصیت عام ہو جائے گی، باہمی بغض و نفرت عام ہوئے گی، کینہ اور حسد کا چلن ہو جائے گا اور آخر میں تمام معاشرہ فتنہ و فساد کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور بجائے اچھائی کے برائی کی تشہیر ہوتی ہے۔ ان سب چیزوں کو روکنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(انك ان اتبعت عورات الناس، افسدتهم أو كدت أن تفسدهم) (ابوداؤد، رقم: 4888)
"اگر تو لوگوں کے عیوب کی ٹوہ میں لگے گا تو یا تو ان کو برا کر دو گے یا پھر برائی سے قریب کر دو گے۔"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے فرمایا کہ "اللہ کے بندوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ، انہیں عار نہ دلاؤ اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کی ٹوہ میں لگے گا، اللہ تعالیٰ اس کے عیب ظاہر کر دے گا اور اسے اس کے گھر میں ذلیل و خوار کر دے گا۔" (مسند احمد: 5/279)
اور طبرانی کی روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیب جوئی
|