عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک روز اسے بلایا اور اس کے ساتھ نہایت عزت و تکریم کے ساتھ پیش آئے کیونکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ "اذا جاء كريم قوم فاكرموه" یعنی جب کسی قوم کا کوئی بڑا شخص آئے تو اس کی عزت و تکریم کرو، بنیامین نے ان سے گفتگو کی۔ وقار اور تحمل کے ساتھ ساتھ اس کے لہجے میں بڑی نرمی اور شیرینی تھی۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے دل پر اس کی گفتگو کا بڑا اثر ہوا، اور انہوں نے قبطیوں کی مذہبی سیادت پیٹریارک بنیامین کے سپرد کر دی کہ وہ جس طرح چاہے ان کی مذہبی راہ نمائی کرے۔ قبطی بطریق بنیامین بھی مسلمان فاتح کے حضور سے انتہائی مسرور اور مطمئن واپس ہوا، اور اسکندریہ پہنچ کر اس نے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے گن گانے شروع کر دئیے۔ وہ اپنے عقیدت مندوں سے کہتا تھا: "میں اپنے شہر اسکندریہ واپس آیا اور دیکھا کہ یہاں ہر طرح کا امن و امان ہے۔ اللہ نے کافروں کے جبرواستبداد کی لعنت ہمارے سروں سے دور کر دی ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا بنیامین کے جذبات تشکر و امتنان میں اضافہ ہوتا گیا۔ آخرکار تمام قبطی اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور اپنی مذہبی رسومات بے کھٹکے ادا کرنے لگے۔ بنیامین نے ان کے کلیساؤں کی اصلاح اور ان کی عبادت گاہوں کا دورہ کیا۔ وہ جہاں کہیں جاتا عقیدت مندوں کا ہجوم کھجور کی چھڑیاں اور عود دان ہاتھ میں لیے ایک جلوس کی صورت میں اس کے ساتھ ہوتا۔ حنانقیوسی مسلمانوں سے بغض رکھنے کے باوجود بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ "رومی سرزمین مصر سے اس لیے نکالے گئے اور مسلمان ان پر اس لیے فتح یاب ہوئے کہ ہرقل نے انسانیت سوز گناہوں کا ارتکاب کیا اور قبطیوں اور ان کے مذہب پر بے انتہاء ظلم ڈھائے تھے۔ مصر میں رومیوں کی ناکامی اور مسلمانوں کی کامرانی کا یہی سبب ہے۔"
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ اسقف بنیامین اپنی قوم میں بڑی حیثیت و منزلت رکھتا ہے تو انہوں نے سیدنا عمرو بن عاص کو لکھا کہ وہ مصر کی حکومت اور اس کے باشندوں کی آسائش کے لیے قبطیوں کے اس بطریق کی رائے سے فائدہ اٹھائیں۔ بنیامین نے بھی مشورہ دینے میں بخل سے کام نہ لیا۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس کا کھویا ہوا سارا اثرونفوذ اسے بخش دیا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مقریزی: 1/492)
|