Maktaba Wahhabi

121 - 421
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ گورنر مصر نے غیر فوجی مناصب اکثر و بیشتر رومیوں ہی کے پاس رہنے دئیے جو فتح مصر سے قبل اپنی حکومت کی طرف سے ان عہدوں پر مامور کیے گئے تھے، اور جنہوں نے اسلامی اقتدار کے بعد بھی اپنے ملک واپس جانے کے بجائے مصر ہی میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ ان میں سے کئی رومیوں نے اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے منیاس کو زیریں مصر کا حاکم مقرر کیا جہاں وہ ہرقل کے زمانے میں حکمران تھا، اور اس کے دوسرے ابنائے جنس کو بعض اور علاقوں کی حکومت تفویض کی، جو عہدے ذرا کم حیثیت کے تھے وہ بھی قبطیوں کو دئیے۔ البتہ جن رومی عہدہ داروں نے اجنبی حکومت کی رعایا بننا گوارہ نہ کیا اور سرزمین مصر کو چھوڑ کر چلے گئے، ان کی جگہ قبطیوں کو دے دی گئی۔ اور یہ سب عہدے ذمیوں کو دئیے گئے۔ مختصر یہ کہ غیر مسلموں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت میں مذہبی معاملات میں پوری پوری آزادی تھی اور پیٹریارک بنیامین کو اسکندریہ کی جو کرسی دوبارہ نصیب ہوئی وہ بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی غیر مسلموں کے لیے پالیسی کا نتیجہ تھی۔ یہ تو صرف مصر کا معاملہ ہے۔ آپ ان تمام معاہدات کو ایک نظر دیکھ لیں جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کے ساتھ کیے گئے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہر معاہدہ میں یہ فرقہ موجود تھا کہ "نہ تو ان کا مذہب بدلایا جائے گا اور نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت کی جائے گی۔" چنانچہ بیت المقدس کے معاہدہ میں بھی یہ الفاظ مذکور ہیں۔ ایسے ہی جرجان، آذربائیجان، لوقان اور دوسرے شہروں کے معاہدات میں صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ "ان کی جان و مال، مذہب اور شریعت کو امان ہے (الامان علي اموالهم وانفسهم وملتهم وشرائعهم) اگرچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اشاعت اسلام کے لیے نہایت کوشاں تھے، لیکن وعظ و پند کے ذریعے نہ کہ جبرواستبداد کے ذریعے، کیونکہ اسلام کا حکم ہے "لا اكراه في الدين"، اور اسلام کے حکم کے سامنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی گردن فوری طور پر خم ہو جاتی تھی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ملکی حقوق کے لحاظ سے ذمیوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز نہیں رکھی تھی۔ کوئی مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کرتا تو مسلمان بے
Flag Counter