Maktaba Wahhabi

119 - 421
پوری آزادی دی ہوئی تھی اور اپنی تمام مذہبی رسوم ادا کرنے میں انہیں نہ تو کوئی خوف تھا اور نہ جھجھک۔ اعلانیہ ناقوس بجاتے، صلیب نکالتے اور ہر قسم کے میلوں میں جن کا تعلق ان کے مذہب سے ہوتا تھا، ان کو ان میں شامل ہونے کی پوری پوری آزادی تھی۔ اسی وجہ سے تو غیر مسلم ہمیشہ مسلمانوں کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تمام ذمیوں کے مذہبی لیڈروں کے تمام اختیارات کو جو انہیں حاصل تھے، باقی رکھا۔ چنانچہ مصر میں اسکندریہ کا پیٹریارک بنیامین جو تیرہ برس تک رومیوں کے ڈر سے ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا، سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب مصر فتح کیا تو اس کو اسکندریہ بلا لیا۔ مؤرخین نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ مصر اور اسکندریہ کی فتح کے بعد سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فسطاط (موجودہ قاہرہ) میں قیام فرمایا تو انہوں نے عقیدے کی آزادی کو اپنی پالیسی کا سنگ بنیاد بنایا۔ چنانچہ جب قبطی راہبوں کو آپ کی پالیسی کا علم ہوا اور اس کی صحت و صداقت میں انہیں کوئی شک و شبہ نہ رہا، تو ان کی ایک بہت بڑی تعداد کلیساؤں سے نکل کر جہاں استبداد کے زمانہ میں انہوں نے پناہ لے رکھی تھی، اطاعت کا اعلان کرتی ہوئی سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑی۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ قبطیوں کو اسقف پیٹریارک بنیامین سے غیر معمولی محبت اور تعلق ہے، اور جب سے اس نے صعید کے دور دراز علاقے کی طرف بھاگ کر صحرا میں پناہ لے رکھی ہے، قبطوں کی اس محبت اور اس تعلق میں اور بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ اس لیے ان کی خواہش تھی کہ بنیامین اپنے مذہبی منصب پر واپس آ جائے۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تمام قبطیوں کو امان دے دی اور اسقف بنیامین کے بارے میں خاص طور پر فرمایا کہ بوڑھے بطریق کو اپنی اور ان قبطیوں کی جان محفوظ سمجھتے ہوئے واپس آ جانا چاہیے، جو مصر یا غیر مصر میں آباد ہیں، انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ ہی ان سے عہد شکنی کی جائے گی۔ بنیامین کو عرب فاتح کے اس عہد کی اطلاع ملی تو وہ صحرائی مأمن سے نکل کر اسکندریہ کی طرف روانہ ہوا۔ اسکندریہ میں قبطیوں نے ایک ظفرمند کی حیثیت سے اس کا استقبال کیا۔ ان کی خوشی کی انتہاء نہ رہی اور یہ خوشی ہر خوف اور ہر تکدر سے پاک تھی۔ جب پیٹریارک بنیامین اپنے پیروؤں میں اطمینان سے رہنے لگا تو سیدنا
Flag Counter