Maktaba Wahhabi

118 - 421
گزاری کی تشخیص کے بارے میں ان سے گفتگو کی گئی۔ دورانِ گفتگو ان سے بار بار پوچھتے رہے کہ آپ لوگوں نے ان سے بندوبست مال گذاری میں سختی تو نہیں کی۔ (الخراج: ص 21) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملکی انتظامات میں بھی ذمیوں اور غیر مسلم رعایا سے مشورہ لیتے رہتے تھے، گویا ملکی انتظامات میں آپ نے انہیں اپنے ساتھ شریک کیا ہوا تھا، خصوصی ظور پر ان معاملات میں جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتا تھا۔ آپ ان کو اکثر و بیشتر ذمیوں ہی کے مشورے اور استصواب سے طے فرماتے۔ چنانچہ مصر کی فتح کے بعد وہاں جو انتظام کیا گیا اس میں اکثر مقوقش سے رائے لی اور عراق کا بندوبست مال گذاری کرتے وقت عجمی رئیسوں کو مدینہ منورہ بلا کر ان سے مال گذاری کے حالات دریافت فرمائے اور مال گذاری کرنے والے کے رویہ کے بارے میں بھی پوچھا۔ (مقریزی: 1/75) فاتح قوم کا رویہ مفتوح قوم سے اکثر درست نہیں ہوتا۔ مفتوح قوم کی عزت و ناموس کو اکثر مجروح کیا جاتا ہے، اور اپنی برتری اور تحکم کا اظہار کیا جاتا ہے، اور قرآن حکیم کے بقول "وجعلوا اعزة اهلها اذلة" عزت داروں کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا جاتا ہے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ذمیوں کی عزت و آبرو کا اسی طرح خیال رکھا جس طرح ایک مسلمان کی عزت و آبرو کا خیال رکھا تھا۔ کسی ذمی اور غیر مسلم کے بارے میں کسی قسم کی تحقیر و توہین کا لفظ استعمال کرنا بھی نہایت ناپسندیدہ خیال کیا جاتا تھا۔ ان کے بڑوں کی تکریم اور چھوٹوں پر اسی طرح شفقت کی جاتی تھی جس طرح مسلمانوں کی کی جاتی تھی۔ سیدنا عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ جو حمص کے گورنر تھے، نہایت نیک و پارسا تھے اور زہدوتقدس میں کوئی ان کا ہم سر نہ تھا۔ ایک مرتبہ کسی ذمی کے بارے میں ان کے منہ سے یہ لفظ نکل گیا: "اخزك اللّٰه" یعنی اللہ تمہیں رسوا کرے۔ لفظ تو غیر شعوری طور پر ان کے منہ سے نکل گیا لیکن اس کے بعد ان کو اس قدر ندامت ہوئی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حمص کی گورنری سے استعفیٰ دے دیا، اور بارگاہ خلافت میں کہا کہ اس نوکری کی بدولت مجھ سے یہ حرکت سرزد ہوئی ہے لہٰذا میں اس کو چھوڑتا ہوں۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء: 2/203) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مملکت اسلامیہ کے تمام ذمیوں کو مذہبی معاملات میں پوری
Flag Counter