ہے۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا: کیا ماجرا ہے؟ جواب دیا کہ ان لوگوں نے جزیہ ادا نہیں کیا، اس لیے ان کو سزا کے طور پر دھوپ میں کھڑا کیا گیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ جزیہ دینے میں ان کا عذر کیا ہے؟ جواب دیا گیا: "مفلسی اور ناداری۔" آپ نے حکم دیا کہ ان سب کو فوری طور پر چھوڑ دو اور ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دو کیونکہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ "لوگوں کو تکلیف نہ دو، جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کو عذاب دے گا۔" (کتاب الخراج: ص 125)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو ذمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ ان سے کیے گئے عہد کی پابندی کی جائے اور ان کا دفاع کیا جائے، اور ان پر ان کی برداشت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے آپ کی اس وصیت کو جو آپ نے اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو کی تھی، ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
"میں ان لوگوں کے حق میں وصیت کرتا ہوں جن کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دیا گیا ہے (یعنی ذمی) کہ ان سے جو عہد کیا گیا ہے اس کو پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔" (بخاری: 1/187)
غیر مسلموں سے خراج وغیرہ لینے کے لیے مال گذاری کا جو بندوبست سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کروایا تھا، اس میں نہایت نرمی اختیار کی گئی تاکہ کسی پر کوئی زیادتی نہ ہو، لیکن اس کے باوجود آپ کو یہ خیال ہر وقت پریشان کرتا تھا کہ کہیں ان پر زیادتی تو نہیں کی گئی۔ چنانچہ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے، اس وقت بھی ذمیوں کا یہ خیال آپ کے ذہن میں اضطراب پیدا کر رہا تھا، حالانکہ آپ کا ہر سال یہ معمول تھا کہ جب عراق کا خراج آتا تو دس اشخاص کوفہ سے اور دس بصرہ سے طلب کیے جاتے تھے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے چار مرتبہ تاکید کے ساتھ قسم لیتے تھے کہ مال گذاری کے وصول کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی سختی تو نہیں کی گئی۔ (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 65)
شہادت سے دو تین روز قبل کا واقعہ ہے کہ تمام افسران بندوبست کو بلایا اور مال
|