Maktaba Wahhabi

116 - 421
کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔ (طبری: 3/105)۔ کیا کوئی حکومت ملک کے مفتوحہ باشندوں کو اس طرح کا انصاف مہیا کر سکتی ہے؟" سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ذمیوں کی جان و مال کو مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قرار دیا اور یہی اسلامی تعلیم ہے۔ چنانچہ اگر کسی مسلمان نے کسی ذمی کو قتل کر دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بدلہ میں مسلمان کو قتل کرانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ قبیلہ بحر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کر دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب پتہ چلا تو آپ نے لکھ بھیجا کہ قاتل قصاص کے لیے مقتول کے وارثوں کو دے دیا جائے۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارث حنین نامی کو دے دیا گیا اور اس نے اس کو قصاص میں قتل کر دیا۔ (الداریہ فی تخریج الہدایہ: ص 360) مال اور جائیداد کو بھی پورا پورا تحفظ دیا، اور جس قدر زمینیں غیر مسلموں کے قبضہ میں تھیں، ان کو اسی حیثیت سے بحال رکھا گیا جس حیثیت سے وہ فتح سے پہلے تھیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی خلاف قانون قرار دے دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شام کی فتح کے بعد سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا، اس میں فرمایا: "مسلمانوں کو منع کرنا کہ وہ ذمیوں پر کسی قسم کا ظلم نہ کرنے پائیں، نہ ان کو کوئی نقصان پہنچائیں، اور نہ ان کا مال بے وجہ کھائیں، اور جس قدر شرائط آپ نے ان سے طے کی ہیں، ان سب کو پورا کیا جائے۔" (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 82) ایک مرتبہ شام کے ایک ذمی کاشتکار نے یہ شکایت بارگاہ خلافت میں کی کہ مسلمان فوج نے اس کی زراعت کو پامال کر دیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بیت المال سے دس ہزار درہم بطور معاوضہ دلوائے اور تمام اضلاع کے حکام کو ایک گشتی مراسلہ (سرکلر) جاری فرمایا کہ ذمیوں پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہ ہونے پائے۔ اسی طرح امام ابو یوسف رحمہ اللہ ہی نے ایک اور روایت نقل کی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب شام سے واپس تشریف لا رہے تھے تو چند آدمیوں کو دیکھا کہ دھوپ میں کھڑے ہیں اور ان کے سر پر تیل ڈالا جا رہا
Flag Counter