مسلمان کے برابر ہو کر رہیں، غیر مسلم کے مال سے جو ٹیکس لیا جاتا ہے وہ جزیہ کہلاتا ہے، اور محاصل زمین سے جو کچھ لیا جاتا ہے وہ خراج کہلاتا ہے۔ زکوٰۃ و عشر میں چونکہ ایک قسم کی عبادت کو دخل ہے لہٰذا اس کا مصرف اور ہے، اور غیر مسلموں سے ان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے لیا جاتا ہے، لہٰذا اس کا مصرف اور ہے۔ البتہ بعض صورتوں میں مسلمان سے بھی خراج لیا جاتا ہے یعنی جو زمین ایک مرتبہ خراجی ہو گئی وہ مسلمان کے قبضہ میں جانے کے بعد بھی خراجی ہی رہتی ہے۔
اسلام کی انہی تعلیمات کی روشنی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ذمی رعایا کو وہ سب حقوق دئیے جو اسلام نے انہیں دئیے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اس زمانہ میں روم و فارس کی حکومتوں میں نہ تو آتش پرستوں کو وہ حقوق دئیے گئے تھے اور نہ ہی بازنطینی سلطنت میں عیسائیوں کو وہ حقوق حاصل تھے حالانکہ وہ رومیوں کے ہم مذہب تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مصر کی فتح کے وقت قبطی باوجود عیسائی ہونے کے مسلمانوں کے بہی خواہ تھے کیونکہ جو حقوق انہیں مسلمانوں نے دئیے تھے وہ قیصر روم نے نہیں دئیے تھے۔ یہودیوں کا حال عیسائیوں سے بھی بدتر تھا۔ وہ ہر قسم کے انسانی حق سے محروم تھے۔ فارس میں جو عیسائی تھے ان کی حالت اور بھی قابل رحم تھی، چنانچہ اسلامی حکومت نے غیر مسلموں کے ساتھ جو معاہدات کیے ان سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی غیر مسلم رعایا کو کیا کیا حقوق دئیے، بیت المقدس کا جو معاہدہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ہوا جس پر بطور گواہان سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے دستخط تھے، اس معاہدہ میں صاف طور پر لکھا گیا کہ عیسائیوں کے جان و مال اور مذہب ہر طرح سے محفوظ ہوں گے۔ ان کے گرجے نہ تو توڑے جائیں گے اور نہ ہی ان کی عمارتوں کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچایا جائے گا، اور نہ ان کے احاطوں میں دست اندازی کی جائے گی۔ یونانی باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے لڑے تھے اور دراصل مسلمانوں کے حقیقی دشمن وہی تھے، ان کے جان و مال کو بھی پورا پورا تحفظ دیا گیا، اور ان کے گرجوں اور معبودوں سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بیت المقدس کے عیسائی اگر وطن سے نکل کر رومیوں سے جا ملیں تو اس پر بھی ان سے
|