ذمی کی آبروریزی اور اہانت و تذلیل خواہ قول سے ہو یا اشارہ و کنایہ سے ہو، سامنے ہو یا اس کی غیبت میں ہو، قطعاً حرام ہے۔ یہاں تک کہ ذمی کی غیبت کرنا بھی حرام ہے، گویا کہ اسلامی ریاست میں ایک مسلمان اور ذمی کے حقوق میں کوئی فرق نہیں بلکہ دونوں کے حقوق میں مساوات ہے، اور اس کو بھی وہ تمام تحفظات حاصل ہیں جو ایک مسلمان کو حاصل ہیں۔ چنانچہ شرح شرعۃ الاسلام میں ہے کہ:
"رعیت کے تمام انواع اصناف میں مساوات کو ملحوظ رکھا جائے۔ کسی کو کسی پر اس کے مرتبہ یا حال کی وجہ سے تقدیم و ترجیح نہ دے۔ قاضی کو چاہیے کہ مدعی اور مدعا علیہ میں کسی بات کا فرق نہ کرے، نہ ان کی مجلس میں، نہ ان کی طرف دیکھنے میں اور نہ ہی گفتگو میں۔" (2/117)
حقوق و معاملات کی مساوات کا یہ دائرہ صرف مسلمانوں ہی تک محدود نہیں بلکہ غیر مسلم ذمی اور مستأمن کو بھی شامل ہے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا جس میں ایک فریق مسلمان تھا اور دوسرا یہودی۔ یہودی سچا تھا لہٰذا آپ نے ڈگری اس کے حق میں دی۔
ہاں مسلمان اور ذمی (غیر مسلم) کا امتیاز کن امور میں ہے، اس کی چند ایک مثالیں یہ ہیں کہ کسی مسلمان عورت کا غیر مسلم سے نکاح درست نہیں ہے کیونکہ عورت مرد کے تابع ہوتی ہے اور مسلمان عورت جب غیر مسلمان مرد کے تابع ہو گی تو اس کا اسلام اور ایمان معرض خطر میں ہو گا، البتہ مسلمان مرد غیر مسلمان عورت سے اس صورت میں نکاح کر سکتا ہے کہ غیر مسلم اہل کتاب میں سے ہو، مشرکہ نہ ہو، یا مثلاً غیر مسلم جو مسلمان حکومت کے تحت رہتا ہے، اس سے اور مسلمان دونوں سے محصول لیا جاتا ہے، لیکن چونکہ مسلمان کے ہر قول و فعل سے عبادت کے پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے، اس لیے جو محصول اس سے لیا جاتا ہے اس کا نام زکوٰۃ یا عشر رکھا گیا ہے۔ اگر وہ ٹیکس اموال تجارت سے لیا گیا تو زکوٰۃ ہے اور محاصل زمین سے لیا گیا تو عشر ہے۔ اور پھر ان کا مصرف بھی الگ الگ مقرر کر دیا گیا۔ غیر مسلم سے جو محصول لیا جاتا ہے اس کا نام جزیہ اور خراج رکھا گیا، اور یہ اس کے حفظ جان و مال کا معاوضہ ہے تاکہ وہ معاملات اور معاشرت میں
|