Maktaba Wahhabi

113 - 421
چنانچہ جونہی مدت التواء ختم ہوئی، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو جو پہلے ہی سرحد پر متعین تھی، حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ فوج حملہ کرنے کے لیے جا رہی تھی کہ ایک صحابی رسول گھوڑا دوڑاتے ہوئے اور یہ چلاتے ہوئے آ رہے تھے "اللّٰه اكبر، اللّٰه اكبر، وفاء لا غدر" یعنی "اللہ اکبر وفا کی جائے بدعہدی نہ کی جائے۔" لوگوں نے جب نظر اٹھا کر دیکھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو پتہ چلا کہ یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: "کیا بات ہے؟" انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ جس قوم اور شخص کے درمیان کوئی عہدوپیمان ہو تو اس کی مدت کے اختتام سے قبل معاہدہ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے حتیٰ کہ مدت معاہدہ پوری ہو جائے یا ان کی طرف سے عہد کو واپس کر دیا جائے۔ چنانچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اپنی فوج کو واپس بلا لیا۔ (ابوداؤد: 2/23، مصنف ابن شیبہ: 12/101، ابن حبان: 8/182، مشکوٰۃ: ص 347) ایک اسلامی ریاست میں جیسا کہ ایک مسلمان کا قصاص ہے یا اس کے اعضائے بدن کے عوض اعضائے بدن کا قصاص ہے، ویسا ہی ایک ذمی کے قاتل سے قصاص لیا جائے گا، اور ایک مستامن کے قاتل سے بھی وہی قصاص لیا جائے گا۔ (مستأمن وہ ہے جو غیر اسلامی ملک میں رہتا ہے لیکن امن لے کر اسلامی ریاست میں آ کر آباد ہو اور ذمی بن گیا) بلکہ بعض لحاظ سے ایک ذمی کے حقوق ایک مسلمان سے بھی اسلامی ریاست میں زیادہ ہیں۔ جو اموال یا اشیاء مسلمانوں کو رکھنا یا استعمال کرنا حرام ہے بلکہ ان کا تلف کرنا ضروری ہے، اگر وہ اشیاء تلف کر دی گئیں تو ان پر کوئی ضمان نہیں، لیکن اگر وہ اشیاء ایک ذمی کی ملکیت میں ہوں اور کوئی مسلمان اسے تلف اور ضائع کر دے تو اس مسلمان کے ذمہ ضمان واجب ہے، چنانچہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلمان کی شراب یا خنزیر کو تلف کر دے تو اس پر ضمان واجب ہے۔ (کما فی در المختار) یہ تو ایک ذمی کی جان اور مال کا حال ہے۔ اسلام نے اس کی ننگ و ناموس کا بھی اسی طرح تحفظ کیا ہے جیسا کہ ایک مسلمان کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا ہے۔ چنانچہ کسی
Flag Counter