Maktaba Wahhabi

484 - 555
دوسرا خطبہ محترم حضرات ! ہم نے پہلے خطبۂ جمعہ میں روزِ قیامت کی جن ہولناکیوں کا تذکرہ کیا ہے ہم ان کا تصور کرکے سوچیں اور عمل ِ صالح کی طرف بڑھیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان ہولناکیوں سے بچ سکیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ إِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ﴾ [1] ’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘ اور فرمایا:﴿وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَہُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ [2] ’’ اور اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا ۔ نہ کوئی شفاعت قبول کی جائے گی اور نہ کوئی بدلہ اور فدیہ لیا جائے گا ۔ اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی ۔ ‘‘ میرے بھائیو ! سلفِ صالحین رحمہم اللہ اور ہمارے درمیان فرق ایمان میں کمی بیشی کا ہے۔چنانچہ سلف جب قیامت کے بارے میں بات کرتے یا سنتے تھے تو انھیں یوں لگتا تھا کہ گویا وہ قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ پھر وہ واجباتِ دین ( مثلا نماز ، روزہ ، حج ، زکاۃ اور بندوں کے لازمی حقوق وغیرہ) کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل میں بھی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ۔یوں ان کے ایمان ویقین میں اور اضافہ ہوجاتا۔ لیکن ہم جب قیامت کے متعلق گفتگو کرتے یا سنتے ہیں تو گویا ایک عام سا موضوع سمجھ کر کچھ بھی متاثر نہیں ہوتے اور نوافل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا تو کجا ہم تو فرائض الٰہیہ اور واجباتِ دین کی ادائیگی میں بھی غفلت برتتے ہیں ! تو اس صورت میں ہمارے ایمان ویقین میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ہماری اس غفلت کا علاج یہ ہے کہ ہم موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کریں ، قرآن مجید کی تلاوت معانی ٔ قرآن میں تدبر کے ساتھ کریں ، نماز میں قرآن کی قرا ء ت ترتیل اور توجہ کے ساتھ کریں ، ہر نماز میں ایک دو سورتوں کو بار بار پڑھنے کی بجائے مختلف سورتوں کو پوری توجہ کے ساتھ پڑھیں ، اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کو یاد کریں اور اس کی نشانیوں میں غور وفکر کریں ، مسنون طریقے کے مطابق بار بار قبرستان میں جائیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں ۔
Flag Counter