ہوئی نمازوں کی قضا نہیں کرنا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "آدمی کے اور کفر وشرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے"(صحیح مسلم) ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا: "ہمارے اور ان(کافروں)کے درمیان نماز کا فرق ہے،تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا"(مسند احمد وسنن اربعہ،بروایت بریدہ بن حصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوئے حالت کفر کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا،اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے مرتدین کو دوبارہ اسلام میں واپس ہونے کے بعد حالت ارتداد کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا کا حکم دیا،لیکن جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا اگر نماز کے وجوب کا منکر نہیں توقضا کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ اسی میں احتیاط نیز اختلاف سے نجات ہے،جیسا کہ اکثر اہل علم اس شخص کو نماز چھوڑنے پر کافر نہیں گردانتے جو نماز کے وجوب کا قائل ہو،واللہ ولی التوفیق۔ سوال نمبر19: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر اول وقت پر اذان نہیں دی گئی تو بعد میں اذان دینے کی کوئی ضرورت نہیں،کیونکہ اذان دینے کا مقصد لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہے،اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟اور کیا صحراء وبیابان میں تنہا شخص کے لیے اذان دینا مشروع ہے؟ جواب: جہاں بہت سارے موذن موجود ہوں جن کی اذان سے مقصد حاصل ہوگیاہو،وہاں اگر کسی موذن نے اول وقت پر اذان نہیں دی تو بعد میں اذان دینا اس کے لیے |