یہ حکم نفل نمازوں کاہے،فرض نمازوں کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ انہیں خانہ کعبہ یا حطیم میں نہ ادا کیاجائے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت نہیں،نیز بعض علماء کا یہ قول ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر،اورچونکہ حطیم خانہ کعبہ ہی کاحصہ ہے اس لیے حطیم میں بھی فرض نماز ادا کرنا درست نہیں،پس معلوم ہواکہ علماء کے اختلاف سے بچ کر سنت کی اتباع کرتے ہوئے فرض نمازوں کا خانہ کعبہ اور حطیم کے باہر ہی ادا کرنا مشروع ہے۔واللہ ولی التوفیق۔ سوال نمبر8: بعض عورتیں حیض اور استخاضہ کے درمیان فرق نہیں کرتیں،چنانچہ بسا اوقات استخاضہ کی وجہ سے لگاتار خون جاری رہتاہے اورجب تک خون بند نہیں ہوجاتا وہ نماز نہیں پڑھتیں،اس سلسلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جواب: حیض وہ خون ہے جو عموماً ہر ماہ دستور الٰہی کے مطابق عورتوں کے رحم سے جاری ہوتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث میں مذکور ہے(اور استخاضہ وہ خون ہے جو عورت کے رحم کے اندر کسی رگ میں فساد وخلل پیدا ہوجانے سے جاری ہوتا ہے)اس سلسلہ میں مستحاضہ عورت کی تین حالتیں ہیں: 1۔ اگر اسے پہلی بار یہ خون آیا ہے یعنی پہلے سے اس کی کوئی اپنی عادت نہیں،تو وہ ہر مہینہ میں پندرہ دن،یا جمہور علماء کے قول کے مطابق اس سے کچھ کم،جب تک پاک نہیں ہوجاتی نماز،روزہ اور شوہر کے ساتھ ہمبستری سے دور رہے گی،اگر پندرہ دن کے بعد بھی خون آرہا ہے تو وہ مستحاضہ ہے،اور ایسی حالت میں اپنے خاندان کی |