Maktaba Wahhabi

73 - 257
جواب: مذکورہ بالا حدیث صحیح ہے جو مسند احمد اور سنن اربعہ میں بروایت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے،یہ حدیث نہ تو ان احادیث صحیحہ کے معارض ہے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلس(اندھیرے)میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے،اور نہ ہی اس حدیث کے مخالف ہے جس میں اول وقت پر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔بلکہ جمہور اہل علم کے نزدیک اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ نماز فجر میں اتنی تاخیر کی جائے کہ فجر واضح ہوجائے اور پھر غلس(اندھیرے)کے زائل ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لی جائے،جیسا کہ آپ کامعمول تھا،البتہ مزدلفہ میں فجر طلوع ہوتے ہی پڑھنا افضل ہے،کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس طرح نماز فجر کے وقت کے سلسلہ میں وارد تمام حدیثوں کے درمیان تطبیق ہو جاتی ہے،نیز یہ اختلاف محض افضلیت میں ہے،ورنہ نماز فجر کو آخیر وقت تک موخرکرنا بھی جائز ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر سورج طلوع ہونے تک ہے"(صحیح مسلم،بروایت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سوال نمبر4: دیکھاجاتا ہے کہ بعض لوگ قمیص چھوٹی اور پاجامے لمبے رکھتے ہیں،اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب: سنت یہ ہے کہ سارے لباس نصف پنڈلی سے دونوں ٹخنوں کے درمیان تک ہی رکھے جائیں،ٹخنوں سے نیچے ان کا لٹکنا جائز نہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
Flag Counter