کہ(حجۃ الوداع میں)جن لوگوں نے عمرہ کے بعد احرام کھول دیا تھا اور حج تمتع کی نیت کر لی تھی انھوں نے دو سعی کی۔پہلی عمرہ کے طواف کے ساتھ اور دوسری حج کے طواف کے ساتھ۔لیکن قارن صرف ایک سعی کرے گا۔اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی کر لیتا ہے۔تو وہی سعی کافی ہو گی ورنہ پھر حج کے طواف کے ساتھ سعی کرے گا۔جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے کہ متمتع دو سعی کرے گا اور قارن ایک اور یہ کہ قارن کو اختیار ہے چاہے طواف قدوم کے ساتھ سعی کر لے بلکہ یہی افضل ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ آپ نے طواف قد وم کے ساتھ سعی بھی کر لی تھی،اور چاہے تو سعی کو مؤخر کر دے اور حج کے طواف کے ساتھ سعی کرے۔یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سہولت پر مبنی امر ہے۔فالحمدللہ علی ذلک۔ ایک اور مسئلہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر متمتع عمرہ کے بعد سفر کے لیے روانہ ہو جائے تو کیا قربانی ساقط ہو جائے گی؟اس بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی مشہور اور ثابت ہے کہ قربانی ساقط نہ ہو گی،چاہے سفر کر کے اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ جائے یا کہیں اور جائے،عام دلائل سے اسی رائے کی تائید ہوتی ہے۔دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اگر سفر کر کے ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں نماز قصر کرنی جائز ہو جاتی ہے اور پھر حج کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ واپس آئے تو مفرد ہو جائے گا اور قربانی ساقط ہو جائے گی۔ |